“بُڈھّے بلوچ کی نِصیحت بیٹے کو”
تحریر: عزیز سنگھور
دی بلوچستان پوسٹ
برطانوی سامراج 1839ء کوخود مختار بلوچ سرزمین پر حملہ آور ہوئی۔ انگریز فوج کو بلوچ سرزمین پر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جنگ میں بلوچوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس لڑائی میں ہزاروں بلوچ شہید ہوئے۔ ایک طویل جنگ اور سازشوں کے ذریعے برطانوی سامراج نے بلوچ سرزمین پر قبضہ کرلیا۔ انگریز نے ایک منصوبہ بندی کے تحت بلوچ قوم کی اجتماعی قوت کو تقسیم کرنے کے لئے بلوچ سرزمین کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔
1871ء میں ایک متنازعہ لکیر گولڈ سمڈ لائن کھینچی گئی جس کے تحت بلوچستان کا مغربی حصہ موجودہ ایران کو دے دیا گیا۔ 1893ء میں ایک دوسری لکیر، ڈیورنڈ لائن کھینچی گئی۔ اس لائن کے تحت بلوچستان کا شمالی حصہ افغانستان کو دے دیا گیا۔ یہ موت کی لکیریں (سرحدیں) بلوچ قوم کی رضامندی، معاشی مفاد اور سماجی بہبود کے خلاف کھینچی گئیں۔
کسی زمانے میں یہ پورا ایک ہی علاقہ تھا۔ برطانوی سامراج نے بلوچستان کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ آج بلوچ سرزمین ایک حصہ موجودہ ایران، دوسرا حصہ موجودہ افغانستان اور تیسرا حصہ موجودہ پاکستان میں ہے۔
گولڈ سمڈ لائن اور ڈیورنڈ لائن کے قیام سے اب تک ہزاروں بلوچ موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ زندہ رہنے کے لئے اشیائےخورونوش اور تیل لارہے تھے۔ انہیں سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے موت کے گھاٹ اتارا۔ اب یہ لائن ایک خونی لکیر بن چکی ہے۔
سترہ جنوری 2024 کو ایرانی فورسز نے پاکستانی بلوچستان کے علاقے ضلع پنجگور میں فضائی حملہ کیا۔ یہ حملہ پنجگور رائفلز کے علاقے سبز کوہ، چیدگی سیکٹر میں ہوا۔ ان حملوں میں دو معصوم بچے شہید اور تین بچیاں زخمی بھی ہوئیں۔ ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے رپورٹ کیا تھا کہ ایران نے بلوچ عسکریت پسند گروپ جیش العدل کے دو اڈوں کو میزائل اور ڈرون حملوں میں تباہ کر دیا۔ یہ حملہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا والی کہاوت کی طرح کا تھا۔ معصوم بچوں کی شہادتیں ہوئیں۔ جن کی عمریں ایک سال سے لیکر پانچ سال تھی۔ کیا معصوم بچے دہشتگرد تھے؟۔ مصیبت یہ ہے کہ چاہے حملہ ایران کی جانب سےہوں یا پاکستان کی جانب سے دونوں طرف موت معصوم بلوچ شہریوں کی ہوتی ہے۔ دونوں اطراف بلوچ کا خون بہہ رہا ہے۔ بلوچوں کا قصور اتنا ہےکہ وہ اپنی سرزمین پر اپنے ساحل و وسائل کی حکمرانی چاہتے ہیں۔ جو ان کا قانونی اور آئینی حق ہے۔ ایران نے جنگی روایتوں کے اصول کی پاسداری نہیں کی۔ بلوچ روایات کے مطابق جنگ میں بچے اور خواتین مستثنیٰ ہوتی ہیں۔ کوئی بھی بلوچ جنگ کے دوران خواتین اور بچوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتا مگر صد افسوس کہ ایران نے معصوم بلوچوں کو شہید کردیا۔
اس حملے کے جواب میں ایرانی بلوچستان کے علاقے زاہدان ہائی وے پر مسلح افراد نے پاسداران انقلاب کے فوجی قافلے پر حملہ کردیا جس کے باعث ایک لیفٹیننٹ کرنل سمیت تین ارکان کو ہلاک کر دیاگیا۔ اطلاعات کے مطابق مسلح افراد نے زاہدان ہائی وے اور جون آباد چوکی کے قریب پاسداران انقلاب کی ایک نجی گاڑی کو نشانہ بنایا، جس میں پاسداران انقلاب کے لیفٹیننٹ کرنل حسین علی جودانفر سمیت ایک فوجی اہلکار ہلاک ہوگیا۔ مذکورہ حملے کی ذمہ داری ایران مخالف تنظیم جیش العدل نے قبول کی۔
اٹھارہ جنوری 2024 کو پاکستانی فورسز نے ایرانی بلوچستان میں ڈرون حملہ کیا ۔ پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایران میں بلوچ آزادی پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ یہ علیحدگی پسند پاکستان میں حالیہ حملوں کے ذمہ دار ہیں۔ ایرانی بلوچستان کے علاقے حق آباد سے جاری ہونے والی ویڈیوز کے مطابق اس حملے کے نتیجے میں خواتین و بچوں سمیت متعدد افراد جان بحق و زخمی ہوگئے۔ جن کی شناخت دوست محمد ولد محمود، ان کی زوجہ شازیہ، ان کے کمسن بچے، بابر دوست ، ھانی دوست ، چراگ دوست اور نجمہ بلوچ، اور تین دیگر معصوم بچے فرھاد ولد محمد جان ، ماھکان اور ماہ زیب کی ناموں ہوئی۔ بلوچ لانگ مارچ کی قیادت کرنے والی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ نے کہا کہ پاکستان اور ایران عام بلوچ خواتین و بچوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ جبکہ بلوچ لانگ مارچ کے بانی رہنما واجہ صبغت اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے ایک دوسرے پر میزائل حملوں اور اس کے نتیجے میں بلوچ خواتین اور بچوں کی شہادتیں ہوئی ہیں۔ دونوں ممالک نےصرف بلوچ کا قتل عام کیا۔
اس جنگ میں پاکستان کو امریکہ اور سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔ جبکہ ایران کو بھارت کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم دونوں اطراف میں بلوچ مارا جارہا ہے۔ بلوچ نہ امریکہ، سعودی عرب اور نہ ہی بھارت کا پراکسی ہے۔ بلوچ کا مسئلہ ایک آئینی و قانونی مسئلہ ہے۔ ان کے جائز حقوق کے حل کے لئے اسلام آباد کی حکومت سنجیدہ نہیں ہے۔
بلوچ کی تاریخ مہرگڑھ سے ملتی ہے۔ ایک تہذیب یافتہ قوم ہے۔ وہ صدیوں سے اپنے مادر وطن کی حفاظت کرتا ہے۔ بلوچوں کی بہادری پر متعدد شاعر اور مصنفین نے کتابیں لکھیں۔ اور کہا کہ بلوچ کو ہرانا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے۔
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے اپنی شاعری میں بلوچ قوم کی تعریف بھی کی حالانکہ وہ پنجابی تھے۔ انہوں نے پنجابی قوم کی کبھی تعریف نہیں کی۔ بلکہ انہوں نے بلوچوں کی بہادری اور جنگی اصولوں کی تعریف کی۔ علامہ محمد اقبال نے”بُڈھّے بلوچ کی نِصیحت بیٹے کو” کے عنوان سے بلوچوں کے حوالے سے ایک نظم لکھی۔ جو مندرجہ ذیل ہے۔
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دِلّی نہ بخارا
جس سمت میں چاہے صفَتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہُنَر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا
محروم رہا دولتِ دریا سے وہ غوّاص
کرتا نہیں جو صُحبتِ ساحل سے کنارا
دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
دنیا کو ہے پھر معرکۂ رُوح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درِندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا
اِبلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
تقدیرِ اُمَم کیا ہے، کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا
اخلاصِ عمل مانگ نیا گانِ کُہن سے
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔