بلوچ یکجہتی کونسل کا دھرنا اور سرکار کی بوکھلاہٹ
تحریر: مش تا مسافر
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے گذشتہ ڈیڑھ مہینوں سے بلوچستان اور اسلام آباد میں بلوچستان سے بڑے پیمانے پر لاپتہ اور اغوا ٔ کیے گئے بلوچ نوجوانوں کی بازیابی اور ماورائے عدالت قتل عام کو روکنے کی غرض سے جاری ہے۔ اس دھرنے کا آغاز تربت میں بالاچ مولابخش نامی نوجوان کی شہادت کے بعد شروع ہوا جو اب اسلام آباد میں جاری ہے۔ اس دھرنے کے شرکا ٔ کا مقصد بلوچستان میں لاقانونیت کی روک تھام اور بلوچ نسل کشی کو روکنا ہے اور اسی مقصد کی خاطر یہ خواتین، بچے، بوڑھے اور نادار لوگ ایک طویل مسافت طے کرتے اور سرکار کی طرف سے عائد کردہ رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچے۔
اسلام آباد میں جس طرح ان کا ستقبال کیا گیا وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ انسانیت سوزی کی ایسی داستانیں اسلام آباد انتظامیہ نے قائم کیں کہ جن کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ بعدازاں اس دھرنے کو سبوتاژ کرنے کے لیے پوری ریاستی مشینری سرگرم ہوگئی اور ادارے اپنے فرائض نبھانے کی بجائے اس دھرنے کے شرکا ٔ پر ہندوستان دوستی کے الزامات لگاتے رہے۔ جب ان کے الزامات کا چورن نہ بک سکا تو انہوں نے ایجنٹوں کے ذریعے سابقہ ادوار کے ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا۔ ایک خاتون کو بلوچ بنا کر قرآن پاک کے ساتھ دھرنا شرکا ٔ کے پاس بھیجا گیا۔ اس عورت نے قرآن کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر کے اور ایک گناہگار کے گناہوں پر پردہ ڈالنے اور قاتلوں کو بچانے کی خاطر استعمال کر کے اس مقدس کتاب کی بے حرمتی کی مرتکب ہوئی جس پر علما ٔ کو چاہیے تھا کہ اس پر مقدمہ کرتے اور اسے اسلامی احکامات اور ملکی قوانین کے مطابق سزا کا موجب قرار دیتے مگر حسب معمول علما ٔ سُوکی نظریں اس طرف نہ اٹھ سکیں یا پھر انہوں نے جان بوجھ کر اپنی آنکھیں موند لیں۔ سرکار نے زرخرید غلام میڈیا نمائندوں کو بھی اپنے مقاصد کی غرض سے وہاں بھیجا تاکہ وہ اس دھرنے کے شرکا ٔ کو منتشر کرسکیں، ہراساں کرسکیں اور انہیں خوفزدہ کر کے اسلام آباد سے نکل جانے پرمجبور کرسکیں مگر ان کرایے کے صحافیوں کو اپنے مقاصد کے حصول میں شدید ناکامی ہوئی اور انہیں عوام کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت اور ذمہ دار اداروں کی جانب سے ایسی حرکتوں کو عوام نے حکومتی بوکھلاہٹ قرار دے کر انہیں رد کیا اور حکام اور ذمہ داروں سے مطالبہ کیا گیا کہ دھرنے میں بیٹھے ہوئے ان مظلوم اور محکوم لوگوں کی داد رسی کی جائے۔ مگر اب تک حکومتی حلقوں میں اس حوالے سے مجرمانہ خاموشی دیکھنے میں آرہی ہے۔
دوسری جانب بلوچستان کے نام نہاد قوم پرستی اور جمہوریت کے دعویداروں پر بھی موت کی سی خاموشی چھائی ہوئی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے بلوچستان کے تمام بڑے بڑے سیاستدان اور قوم پرست حلقے مرچکے ہیں اور اب صرف اس خطے میں زندہ لاش ہیں جو ووٹ مانگنے کے لیے بدروح بن کر لوگوں کے پاس بھیک مانگنے جا رہے ہیں۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ یہ سیاستدان خود تو عوام میں جانے کی جرأت نہیں کرسکتے کیونکہ ان کو علم ہے کہ عوام کی جانب سے اس بار خوفناک ردِ عمل سامنے آسکتا ہے اور وہ ان سرکاری سیاستدانوں کو قدم قدم پر ذلیل کرتے رہیں گے۔ لہذا یہ اپنے ورکرز کو بے وقوف بنا کر عوام میں بھیج رہے ہیں یا سوشل میڈیا پر اپنی تشہیر کرنے تک محدود ہوچکے ہیں۔ کچھ سیاستدان تو ایسے ہیں جن کی مثال موسمی پرندوں سے دی جاسکتی ہے کہ وہ ہر چند دن بعد اپنی پلیٹ الگ کر لیتے ہیں اور جہاں پر انہیں مقتتدر حلقے حکم دیتے ہیں یہ وہیں پر چلے جاتے ہیں۔ ان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں یہ غلاموں سے بھی بدتر ہیں۔ گذشتہ ڈیڑھ مہینوں سے جاری اس دھرنے نے جو اب ایک زبردست تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے کو کسی بھی سیاستدان نے درخور اعتنا ٔ نہیں سمجھا اور انہیں الزامات دینے لگے۔ کوئی انہیں غیر ملکی ایجنٹ کہتا تو کسی نے انہیں کسی خاص ایجنڈے پر عمل کرنے والا گروہ کہا مگر کسی نے بھی ان دُکھی انسانوں کا غم بانٹنے کی نہ تو کوشش کی اور نہ ہی خواہش۔ بلکہ یہ قاتلوں کے ساتھ مل کر اس تحریک کو سبوتاژ کرنے میں مست ومگن رہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور سردار اختر مینگل تو ایک عرصے سے قوم کو دھوکہ دیتے چلے آ رہے ہیں جبکہ ان سے قوم کی بڑی امیدیں وابستہ تھیں مگر یہ گرگٹ رنگ بدلتے رہے اور بلوچ نسل کُشی کی باقاعدہ قیمت وصول کرتے رہے اور اپنی جیبیں بھرتے رہے۔ حال ہی میں حکومت نے اپنے ایک دلال ایجنٹ جو ایک ڈیتھ سکواڈ کا سربراہ ہے اور کبھی اس کا قاتل باپ بھی اس گروہ کی سربراہی کرتا تھا۔ اب اس نونہال قاتل کو اسلام آباد میں دھرنے میں بٹھایا گیا ہے تاکہ وہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے شرکا ٔ کو ہراساں کرسکے اور انہیں کوئی نقصان پہنچا سکے۔ یقینا بلوچ قوم اب اتنی نادان اور بے وقوف نہیں کہ وہ قاتل سراج رئیسانی کے بیٹے اور حکومت کی سازشوں کو نہ سمجھ سکے۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن اور باعث تعجب امر تو یہ ہے کہ اس قاتل کا چچا جو الیکشن لڑ رہا ہے اور وہ جانتا ہے کہ عوام اسے لات ماریں گے اور دھکے دے کر اپنے حلقے سے نکال باہر کریں گے۔ یعنی نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی جو قاتل سراج رئیسانی کا بھائی اور نونہال قاتل جمال رئیسانی کا چچا ہے، اب وہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنا کو حق بجانب قرار دے رہا ہے اور اپنے ووٹ بینک کی خاطر ان کی حمایت کر رہا ہے۔ جبکہ چیف آف سراوان نواب اسلم رئیسانی بھی اپنے بھتیجے کو اس ناروا عمل میں حصہ لینے سے نہیں روک پایا یا پھر جان بوجھ کر اس کی طرف سے آنکھیں بند کرلی ہیں۔ وہ چاہتے تو اپنے بھتیجے کو سرکاری دلال بننے سے روک سکتے تھے۔ جبکہ حاجی لشکری صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنے ووٹوں کی خاطر بلوچ یکجہتی کمیٹی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کریں۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ بلوچ قوم میں ان کی کوئی ساکھ بنے تو سب سے پہلے اپنے گھر کی جانب توجہ دے اور بلوچ مخالفت اور بلوچستان دشمنی کو روکنے کا آغاز اپنی چوکٹ سے شروع کرے۔ ان کی ان موقع پرستانہ نعروں سے عوام کو ورغلایا نہیں جاسکتا اور نہ ہی بلوچوں کو ووٹ دینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ حاجی لشکری رئیسانی کا چورن یہاں بکنے والا نہیں ہے وہ چاہے تو اپنے استحصالی نطام پر کاربند رہے اور جھوٹ بول کر اور بلوچ قوم کو مزید دھوکہ دے کر اسمبلی ممبر بننے کا خواب چھوڑ دے۔ یقینا بلوچ قوم کو اب مزید بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا اور نہ ہی الیکشن کے نام پر انہیں دھوکہ دیا جاسکتا ہے۔ ان کی مثال ایسے ہی کہ ’’بغل میں چھری اور منہ میں رام رام‘‘۔ منافقت کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور یہ سفید کالر اور قبائلی عمائدین منافقت میں شیطان سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔
اسی طرح جب اسراراللہ زہری کو سیاسی میدان میں بدترین ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے گھر سے ان کی مخالفت ہونے لگی تو انہیں بھی اچانک ڈاکٹر ماہ رنگ اور اس کے ساتھیوں سے ہمدردی کرنے کا خیال آیا۔ افسوس اس حد تک منافقت جبکہ یہ لوگ اپنے آپ کو دنیا کے بہترین اور بہادر لوگوں میں شمار کرتے ہوئے تھکتے نہیں۔ ان کی اسی منافقانہ رویوں کی وجہ سے آج بلوچ قوم اور ان کی سرزمین بدترین تباہی سے دوچار ہے۔ آج تک نوابزادہ لشکری خان رئیسانی، نوابزادہ میر اسراراللہ زرکزئی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، میر اسداللہ سدوزئی، میر احسان شاہ غرشین اور نواب ثنا ٔاللہ زرکزئی نے لاپتہ بلوچوں اور فوج کشی کا شکار بلوچستان کے حق میں ایک بھی بیان نہیں دیا مگر الیکشن کا موسم قریب آتے ہی سب نے اپنا اپنا چورن بیچنا شروع کیا۔
میں بلوچ قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ ان وطن فروش اور قوم دشمن عناصر سے خبردار رہیں اور ان کی کسی بھی قول و فعل پر یقین نہ کریں۔ یہ صرف ووٹ کی بھیک مانگتے ہیں اور اس کے بعد وہ دوبارہ اپنے آقاؤں کی قدموں میں بیٹھے ہوئے نظر آئیں گے جبکہ ان کے پاس بوٹ پالش کا سارا سامان بھی موجود ہوگا۔