بلوچ نیشنل ازم کراچی ۔ اویس بلوچ

311

بلوچ نیشنل ازم کراچی 

تحریر: اویس بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

نیشنلزم کی تشکیل کے بارے میں مفکرین اور دانشوروں کے مختلف نظریات ہیں لیکن ان سب میں انہوں نے جن عناصر کی نشاندہی کی وہ یہ ہیں کہ یہ گروپوں ، جماعتوں اور برادریوں کو آپس میں ملاتے ہیں اور ایک قوم کی صورت میں متحد کر کے ان میں نیشنلزم کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔

اکثر ملک صنعتی عمل سے دوچار نہیں ہوئے تھے بلکہ سرمایہ داری کے عروج کے ساتھ جو کالونیلزم ایمپائرلزم ابھرا اس کے شکار ہوئے تھے اس لیے دنیا کے اکثر ملکوں میں نیشنلزم کلچر اور تاریخ کے ذریعے وجود میں آیا۔ نیشنلزم کی ایک شکل نہیں ہے یہ مختلف شکلوں میں حالات کے مطابق ابھرتا ہے مقبول ہوتا ہے اور ختم ہو جاتا ہے اس کی تبدیلی ہر ملک کے اپنے حالات ، طبقات ، مفادات اور سیاست سے ہوتا ہے اس لیے یہ مذہبی ، قدامت پرست ، آزاد خیال ، کمیونسٹ ، سیاسی ، کلچرل ، ملانے والا ، علیحدہ کرنے والا اور قدیم تاریخی طور پر تعلق رکھنے والے علاقوں کی واپسی کے جذبے کا مظہر ہوتا ہے۔

جس وجہ سے نیشنلزم اہمیت کا حامل ہوتا ہے اس کے تین عناصر ہیں خود مختیاری اتحاد اور شناخت یہ تین اہم کردار اسے آگے کی جانب بڑھاتے ہیں یہ معاشرہ کو ذہنی طور پر باور کراتے ہیں کہ وہ ایک آزاد ملک و معاشرے کے لیے جدوجہد کریں اور اگر ضرورت پڑے تو اس کے لیے قربانی سے گریز نہ کریں ۔

کراچی تاریخی لحاظ بلوچ سیاست کا انتہائی اہم علاقہ رہا ہے، ہر دور میں مختلف مشکلات کا سامنا کرنے کے باجود بھی کراچی بلوچوں کی سیاسی ، سماجی ، ادبی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے بلوچوں کی کثیر آبادی شہر ہونے کی وجہ سے بلوچ تحریکوں میں کراچی کے بلوچوں کا اہم کردار رہا ہے ،اور یہی کراچی کے بلوچوں کی سیاسی جدوجہد ریاست کیلئے دردِ سر تھی اس وجہ سے ریاست کی ہمیشہ کوشش رہی کہ بلوچوں کو کاونٹر کیا جائے اور کراچی کے بلوچوں کے سیاسی جہدوجہد میں خلا پیدا کیا جائے کراچی کے بلوچوں کو کاونٹر کرنے کے لیے ریاست نے مختلف ہتھیار استعمال کیے ان میں نمایا دو ہیں اول : بلوچ علاقوں میں منشیات کو عام کرنا۔ دوسرا : گینگ واری

ابتدائی طور پر ریاست نے بلوچ علاقوں میں منشیات کو عام کردیا منشیات کے زد میں آنے والے علاقے لیاری ، ماڑی پور ، شیر شاہ ، گولی مار ، فقیر کالونی وغیرہ وغیرہ تاحال یہ صورتحال جاری و ساری ہیں آج بھی کھبی جب میرا کراچی جانا ہوتا ہیں تو اکثر و بیشتر میں دیکھتا ہو کہ منشیات کے شکار لوگ کثیر تعداد میں بلوچ ہی ہیں اور اتنی تعداد میں منشیات کے عادی ہیں کہ ایسا لگتا ہیں کہ ہر بلوچ گھرانے میں ایک فرد منشیات جیسے مہلک مرض کا عادی ہے، آپ اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں کریش و تریاق سے سالانہ اموات 1200 کے لگ بھگ ہوتی ہیں جن میں ٪60 تعداد بلوچوں کی ہیں۔ ریاست بلوچوں کو مزید کمزور کرنے کرنے کے لیے انہی منشیات فروشوں کے ہاتھوں میں بندوق تھما دیااور بلوچ کو بلوچ کے خلاف لڑایا اور یہی منشیات فروش بعد میں گینگ وار کے نام سے جاننے لگے جن میں ارشد پپو ، رحمان ڈکیٹ ، عزیر ، بابا لاڈلہ اور غفار زکری کو سامنے لایا گیا اور یہ لوگ خوف و دہشت کی علامت بن گئے ان کے دور میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ مارے گئے تھے جن میں ہمارے ادیب ، ڈاکٹر ، وکلاء ، پروفیسرز ، دانشوروں ، صحافی ، مختلف مکتبہ فکر کے لوگ اور ہزاروں کی تعداد میں قوم پرست رہنما و جوان شہید کیے گئے جب ریاست کو ان منشیات فروشوں و گینگ واروں کی ضرورت نہ رہی تو ریاست نے رینجرز کو میدان میں لایا اور ان کا صفایا کرنا شروع کرنا کردار وہی پرانہ گینگ واری کا رینجرز کے ہاتھ تھمایا گیا رینجرز نے بھی قتلِ عام شروع کیا ہزاروں بلوچوں کو گینگ واری کے نام پر قتل کیا یہ سلسلہ اب تک جاری و ساری ہیں گزشتہ دو یا تین دہائیوں میں جو کچھ ہوا وہ ہمارے سامنے ہیں ہم نے اپنے آنکھوں سے یہ صورتحال دیکھی کہ یہ ریاست بلوچوں کے خون کی پیاسی ہیں اس نے ہزاروں کی تعداد میں کراچی کے بلوچوں کا قتلِ عام کیا جن میں اکثریت ہمارے مکتبہ فکر اور نوجوانوں کی ہیں۔ کراچی کے بلوچوں میں ایک بار پھر قوم پرستی کی لہر اٹھ رہی ہیں ایک بار پھر کراچی کے بلوچ ہر میدان میں وطن دوستی اور قوم کے ساتھ پابت قدم اور شانہ بشانہ نظر آرہے ہیں اس قوم پرستی کو معدوم کرنے اور اس کو کمزور کرنے کے لیے ریاست مختلف ہتھیار استعمال کرے گی خون ریزی کا تیسرا مرحلہ بھی شروع ہوگا ایک بار پھر ریاست طاقت کے زور پر ذہنوں پر فاتح پانے کی کوشش کرے گی مگر اب کی بار ہم بلوچوں کو ہر آلے کو سمجھنا ہیں اور اور ہر کوشش کو ناکام کرنی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔