بلوچ نسل کشی کے خلاف ہونے والے27 جنوری کوئٹہ جلسے کی بھر پور حمایت کرتے ہیں۔ بلوچ مزاحمت کاروں کے ساتھ مزاکرات کے دعوے دار بلوچ ماؤں بہنوں کی فریاد سننے میں ناکام رہیں – این ڈی پی
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ بالاچ بلوچ کی ماروائے آئین دوران کسٹڈی قتل کے بعد تربت سے جو تحریک شروع ہوئی اس نے پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ تحریک ایک خاندان کی فریاد سے شروع ہو کر آج ہزاروں خاندانوں کی نمائندگی کر رہی ہے جس میں ماروائے آئین قتل اور جبری گمشدگی کے خاتمے جیسے شہری، آئینی اور انسانی حقوق کی بنیاد پر مطالبات شامل ہیں مگر ریاست کی جانب سے شہرِ استعمار میں جو ناروا سلوک رکھا گیا وہ اس پیغام کے لئے کافی تھا کہ بلوچستان کی حیثیت کالونی کی ہے جہاں کے عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے اور ان بلوچ ماؤں بہنوں کے ساتھ استعماری قوتوں کے سلوک سے یہاں کے حکمرانوں کی ظلم و جبر اور متشدد پالیسیاں دنیا کے سامنے آشکار ہو چکے ہیں جس کے خلاف27 جنوری کو کوئٹہ میں ہونے والا جلسہ اسے مزید آشکار کرے گا۔ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اس جلسے کی بھرپور حمایت کرتی ہوئے شمولیت اختیار کرے گی۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ریاست کی جانب سے بارہا یہ باور کرایا جاتا ہے کہ بلوچ مزاحمت کاروں کے ساتھ مزاکرات کیا جائے گا مگر بلوچ ماؤں، بہنوں اور جبری گمشدہ خاندانوں کے متاثرین کی فریاد سننے میں ناکامی کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ اس نام نہاد جمہوری ریاست میں بلوچ کے ساتھ کوئی بھی مزاکرات ڈھونگ ہوگا بلکہ یہاں بلوچ سے نمٹنے کے لئے صرف ایک ہی حربہ طاقت کا استعمال کیا جائےگا لہٰذا ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ریاست کے پاس دلیل طاقت ہے تو بلوچ کے لئے بھی طاقت کے علاوہ کوئی دوسرے راستے کا انتخاب محض خام خیالی تصور کیا جائے گا۔