بلوچ نسل کشی کے خلاف اور اسلام آباد میں بلوچ مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لئے دیگر ممالک کی طرح کینیڈا اور جرمنی میں احتجاج ریکارڈ کرائے گئے ہیں۔
اس حوالے سے بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب سے جرمنی اور، بلوچ، سندھی و پشتون کمیونٹیز کی جانب سے کینیڈا میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں جلا وطن بلوچ سیاسی کارکنان اور سول سوسائٹی کے ارکان شریک ہوئے۔
جرمنی احتجاج کے حوالے سے بلوچ نیشنل مومنٹ کا کہنا تھا کہ احتجاج کا مقصد بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کو اجاگر کرنا اور جبری گمشدگی کے خلاف جاری تحریک کی طرف عالمی اقوام کی توجہ دلانا ہے، اس دؤران مظاہرین نے اسلام آباد پولیس کی جانب سے بلوچ نسل کشی کے خلاف پرامن لانگ مارچ کے شرکاء پر طاقت کے استعمال کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
اس موقع پر بی این ایم کے سینٹرل کمیٹی ممبر حمل خان نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا ریاستی اداروں کی جعلی مقابلے میں بالاچ مولابخش کے حراستی قتل کے خلاف اٹھنے والی تحریک ایک فرد یا خاندان کی نہیں بلکہ یہ پوری بلوچ قوم کی نمائندہ تحریک ہے، جس نے جغرافیائی حد بندیوں کو پھلانگتے ہوئے اجتماعی بلوچ قومی شعور کو استعمال کرتے ہوئے قوم کو متحد کیا۔
بی این ایم جرمنی کے صدر اصغر بلوچ نے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے گہرے رنج و الم کو بیان کرتے ہوئے تحریک کو منظم کرنے میں بلوچ خواتین کے مزاحمتی کردار کی تعریف کی۔ انھوں نے سن 2009 سے جبری لاپتہ ذاکرمجید کی والدہ کے غیرمتزل عزم کو اجاگر کرتے ہوئے کہا یہ ایک ماں کی اپنے جبری گمشدہ بیٹے کے لیے انتھک جدوجہد کی مثال ہے۔
جرمنی مظاہرین نے اس موقع پر بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات اور ذمہ داروں کے احتساب کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اقوام متحدہ سے مداخلت کی اپیل کی۔
بلوچستان سمیت دیگر ممالک کی طرح اتوار کے روز کینیڈا میں بھی بلوچ انسانی حقوق کونسل “بی ایچ آر سی” کی جانب سے اسلام آباد میں بلوچ مظاہرین سے اظہار یکجہتی و بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف ٹورانٹو میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں کینیڈا میں مقیم بلوچ سیاسی کارکنان کے ہمراہ کینیڈا کے سول سوسائٹی اور سندھی، پشتون کمیونٹیز کے ارکان نے شرکت کی-
اس موقع پر مظاہرین کا کہنا تھا کہ ریاست نے جو رویہ بلوچوں کے ساتھ اسلام آباد میں اپنایا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست بلوچوں کو اس ملک کا شہری نہیں سمجھتا کیونکہ بلوچ مظاہرین پرامن طریقہ سے اس ملک کے دارالخلافہ میں انصاف مانگنے آئے تھے لیکن انھیں تشدد کا نشانہ بناکر گرفتار کیا گیا اور بلوچوں پر واضح کیا گیا کہ بلوچ کے لئے اس ملک میں انصاف کی گوئی گنجائش نہیں۔
کینیڈا مظاہرین کا کہنا تھا آج پاکستان میں پنجاب کے علاوہ تمام اقوام ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں اور پنجاب اس ریاستی دہشت کا فائدہ اُٹھا رہا ہے جہاں بلوچ، سندھی، پشتون کے خون پر لاہور کی ترقی کی بنیاد رکھی گئی ہے-
مظاہرین نے دنیا بھر کے اقوام اور انسانی حقوق کے تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان میں دیگر اقوام کے ساتھ ریاستی رویہ کی مذمت کرتے ہوئے اسے قتل و غارت پر جوابدہ کرے اور اقوام متحدہ اپنا ایک تحیقیات مشن بلوچستان بھیجے-
انہوں نے مزید کہا بلوچستان سمیت سندھ اور پشتونخواہ میں جو ریاستی مظالم جاری ہیں وہ آج نہیں بلکے پاکستان کے وجود سے جاری ہیں، جب یہ اقوام خود پر ہونے والے مظالم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں یا اپنے وسائل پر حقوق مانگتے ہیں تو ان پر تشدد کرکے غائب کردیا جاتا ہے اور اب بھی ہزاروں بلوچ سیاسی کارکنان ریاستی زندانوں میں قید ہیں جن کی بازیابی انسانی حقوق کی تنظیموں اور مغربی ممالک کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے۔