گزشتہ سال نومبر میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں جعلی مقابلے میں زیر حراست بالاچ مولابخش کی قتل بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کی طرف سے بلوچ نسل کشی کے خلاف جاری دھرنے اور لانگ مارچ کی حمایت کرنے کے الزام میں ضلع کیچ کے 30 سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا۔
ضلع انتظامیہ کیچ کی جانب سے مختلف محکموں کے 30 سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی کے لیے ان کے متعلقہ اداروں کو سفارشی لیٹر بھیج دیا گیا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کوار ڈینیشن کمیٹی کا اجلاس ڈپٹی کمشنر کیچ کی سربراہی میں منعقد ہوا جس میں سرکاری ملازمین کی طرف سے بالاچ مولابخش کی اس سال 23 نومبر کو سی ٹی ڈی کے زریعے قتل کے بعد تربت میں احتجاجی کیمپ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی لانگ مارچ کو سپورٹ کرنے کے الزام میں ضلع کیچ کے 30 سرکاری ملازمین کے خلاف بیڈا ایکٹ کے تحت تادیبی کارروائی کی منظوری دی گئی۔
سرکاری ذرایع کے مطابق تادیبی کارروائی کے لیے فہرست میں شامل گریڈ ایک تا پندرہ کے سرکاری ملازمین کو کمشنرمکران ڈویژن نے ملازمت سے معطل کردیا جس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے جب کہ گریڈ 16 اور اس سے اوپر کے ملازمین کے خلاف کارروائی کے لیے ان کے متعلقہ محکموں کے سیکریٹریز کو لیٹر بھیجا گیا ہے۔
ان ملازمین میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ٹیچنگ ہسپتال تربت ڈاکٹر محمد یوسف، منیجنگ ڈائریکٹر این سی ایچ ڈی کیچ التاز سخی، ایس ڈی او بی اینڈ آر ارشاد پرواز، ایس ڈی او گھرام گچکی کے نام بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ ضلع کوہلو سے 14 سرکاری ملازمین کی معطلی کے احکامات بھی جاری کیے جاچکے ہیں جن پر دھرنا اور لانگ مارچ کو سپورٹ دینے کا الزام ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے تربت اور کوہلو دھرنے میں شریک یا اخلاقی حمایت کرنے والوں کے خلاف انتقامی کارروائی کا آغاز، سرکاری ملازمین کی معطلی، مسائل کے حل میں حکومت کی سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ ریاست تربت اور کوہلو میں 44 سرکاری ملازمین کو برطرف کرکے خوف و دہشت کا ماحول برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ریاستی مشینری نے کئی علاقوں میں دھرنے کے شرکا کے خلاف جعلی ایف آئی آر بھی درج کرائی ہیں۔ وہ بنیادی مسائل کو حل کرنے سے زیادہ مسائل پیدا کر رہے ہیں۔