بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری تحریک کو عالمی توجہ کی ضرورت ہے-
عالمی انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل ساؤتھ ایشیاء کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچ نوجوان بالاچ مولا بخش کے ماورائے عدالت قتل کے تناظر میں 6 دسمبر 2023 کو بلوچستان کے شہر تربت سے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد تک شروع ہونے والے لانگ مارچ جس کی قیادت بلوچ خواتین اور ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ کیے گئے بلوچوں کے اہل خانہ کر رہے ہیں اسلام آباد پہنچنے کے بعد سے گذشتہ 16 دنوں سے دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔
تنظیم نے جبری گمشدگیوں کے حوالے سے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جبری گمشدگیاں لاپتہ کئے جانے والے افراد کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں، جس میں ان کی محفوظ زندگی اور آزادی کے حق کے ساتھ ساتھ ان کے خاندانوں کے معاشی اور سماجی حقوق بھی شامل ہیں-
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسلام آباد میں بلوچ مظاہرین پر تشدد کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ بلوچ نسل کشی کے خلاف جاری لانگ مارچ کے دوران، مظاہرین کو پولیس کی بربریت، حراستوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ پاکستان میں لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو اپنے پیاروں کے بارے میں بات کرنے پر دھمکیوں اور ہراسگی کا سامنا کرنے کے بھی کیسز سامنے آئے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو ختم کرتے ہوئے ان واقعات کے خلاف فوری کارروائی کرے-
انہوں نے کہا کہ یہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جبری گمشدگی کا شکار افراد بازیاب کرائے یا انکے اہلخانہ کو بتائے کہ انکے پیارے کہاں ہیں اور حکومت متاثرین اور ان کے اہل خانہ کو جامع معاوضہ کے ساتھ ساتھ متاثرہ خاندانوں کے احتجاج کے حق کی حفاظت کرتے ہوئے جبری گمشدگیوں کے خلاف غیر جانبدارانہ تحقیقات کرتے ہوئے جبری گمشدگیوں کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کے مطابق مجرمانہ قرار دے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے بیان کے آخر میں کہا ہے ہماری تنظیم بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری عوامی تحریک کو درپیش نظامی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے عالمی توجہ اور مداخلت کی فوری ضرورت پر زور دیتی ہے۔