بحیرہ احمر میں بڑھتی کشیدگی پر تشویش ہے – سعودی عرب

222

سعودی عرب کا کہنا ہے کہ خطے میں کشیدگی ’پریشان کن‘ ہے اور ہم اس کشیدگی میں کمی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سعودی عرب کو اس بات پر ’شدید تشویش‘ ہے کہ بحیرہ احمر میں یمن کی حوثی ملیشیا کے حملوں اور حوثیوں کے ٹھکانوں پر امریکی حملوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کشیدگی قابو سے باہر ہوسکتی ہے اور خطے میں تنازع مزید بڑھ سکتا ہے۔

سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا، ’یقیناً ہم بہت پریشان ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہم خطے میں بہت مشکل اور خطرناک وقت سے گزر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘

گذشتہ کئی ہفتوں سے بحیرہ احمر اور اس کے آس پاس بحری جہازوں پر حوثی ملیشیا کے حملوں نے ایشیا اور یورپ کے درمیان تجارت کو سست اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے باعث کشیدگی کے خطے میں پھیلاؤ سے بڑی طاقتوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’مملکت جہاز رانی کی آزادی پر یقین رکھتی ہے اور چاہتی ہے کہ خطے میں کشیدگی میں کمی لائی جائے۔‘

انہوں نے سی این این کے شو ’فرید زکریا GPS‘ کو ایک انٹرویو میں کہا کہ ’یقیناً، ہم جہاز رانی کی آزادی پر بہت یقین رکھتے ہیں۔ اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی حفاظت کی جانی چاہیے۔ لیکن ہمیں خطے کی سلامتی اور استحکام کا بھی تحفظ کرنا ہو گا۔ لہٰذا ہم کشیدگی کو زیادہ سے زیادہ کم کرنے پر توجہ دے رہے ہیں۔‘

یمن کے زیادہ تر حصے پر کنٹرول رکھنے والے حوثیوں کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیل کے حملوں کا نشانہ بننے والے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے حملے کر رہے ہیں۔

گذشتہ ہفتے سے امریکہ یمن میں حوثی ملیشیا کے ٹھکانوں پر حملے کر رہا ہے اور اس ہفتے اس ملیشیا کو ’دہشت گرد‘ گروہوں کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو کہا تھا کہ فضائی حملے جاری رہیں گے حالانکہ انہوں نے تسلیم کیا کہ اس سے حوثیوں کے حملے نہیں رک رہے۔

اس محاذ آرائی کی وجہ سے خطرہ ہے کہ یہ تنازع غزہ سے باہر بھی پھیل سکتا ہے، جہاں مقامی وزارت صحت کے بقول اسرائیل کے حملوں میں گذشتہ تین ماہ کے دوران 24 ہزار سے زیادہ افراد یا غزہ کی 23 لاکھ آبادی کا ایک فیصد سے زیادہ جان سے جا چکے ہیں۔