امریکہ نے رواں ماہ کے اوائل میں ایرانی علاقے کرمان میں ہونے والے دو خودکش حملوں سے قبل تہران کو نجی طور پر خبردار کیا تھا کہ افغانستان میں داعش سے منسلک ایک گروپ دہشت گردانہ حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ‘ایسو سی ایٹڈ پریس’ کے مطابق یہ بات ایک امریکی اہلکار نے جمعرات کو اس واقع کے حوالے سے بتائی جس میں 95 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اہلکار نے انٹیلی جینس معاملات پر بات کرنے کے لیے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ امریکہ ممکنہ مہلک خطرات کے خلاف دوسری حکومتوں کو ‘خبردار کرنے’ کی اپنی دیرینہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
اہلکار نے یہ نہیں بتایا کہ امریکہ، جس کے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں، نے داعش خراسان کے بارے میں اپنی انٹیلی جینس کے بارے میں انتباہ کس طرح پہنچایا۔
تاہم انہوں نے نوٹ کیا کہ سرکاری اہلکار “یہ انتباہ جزوی طور پر اس لیے فراہم کرتے ہیں کیوں کہ ہم دہشت گردانہ حملوں میں معصوم جانوں کا زیاں دیکھنا نہیں چاہتے۔”
ایران کے سرکاری میڈیا نے امریکہ کی طرف سے تہران کو معلومات دینے کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا۔
یاد رہے کہ داعش خراسان نے تین جنوری کو ایران کے شہر کرمان میں دو خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں کم از کم 95 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
اس حملے کا نشانہ بننے والے افراد انقلابی گارڈ کی مہم قدس فورس کے رہنما جنرل قاسم سلیمانی کی یاد میں منعقدہ تقریب میں شریک تھے۔ جنرل قاسم سلیمانی 2020 میں بغداد میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔
امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کی مذکورہ کارروائی سے متعلق پہلے خبردار کیے جانے سے متعلق اقوامِ متحدہ میں ایران کے مشن نے فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک سی ایس آئی ایس سے وابستہ مشرقِ وسطیٰ کے پروگرام کے ڈائریکٹر جون الٹرمین کہتے ہیں کہ یہ انتباہ امریکہ، اسرائیل اور دیگر مغربی مفادات پر ایرانی حمایت یافتہ پراکسیوں کے حالیہ حملوں اور تہران کے جوہری پروگرام میں پیش رفت کے باوجود ایران کے ساتھ بات چیت کے لیے امریکہ کی خواہش کا عکاس ہے۔
الٹرمین نے امن کی علامت کے طور پر کہا کہ “یہ زیتون کی شاخ ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ چاہتی تھی کہ واشنگٹن اور تہران کے درمیان بات چیت سے فریقین کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
واشنگٹن کے ولسن سنٹر کے تھنک ٹینک کے آرون ڈیوڈ ملر نے بڑی حد تک اس بات سے اتفاق کیا۔
انہوں نے اس ضمن میں جوہری معاہدے کی ناکام کوششوں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ حریفانہ تعلقات میں تبدیلی کے امکانات کی کمی کو نوٹ کیا۔
انہوں نے کہا کہ آپ امریکہ اور ایران کے تعلقات کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ البتہ تناؤ کم کرنے، جنگ سے بچنے اور لین دین کے لیے مواقع تلاش کرسکتے ہیں۔
اس واقع کے بعد سے ایران غزہ کی پٹی میں حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے درمیان حملے کے لیے امریکہ اور اسرائیل کو موردِ الزام ٹھہرانے کی کوشش کر رہا ہے۔
حالیہ عرصے کے دوران ایران نے عراق اور شام پر میزائل حملے کیے ہیں۔ اس کے بعد اس نے جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان پر حملہ بھی کیا جب کہ پاکستان نے ایران کو حملے کا جواب بھی دیا تھا۔
خیال رہے ایران و پاکستان کا ایک دوسروں پر حملوں میں دونوں ملکوں میں تقسیم بلوچستان کے علاقے زد میں رہیں جہاں دونوں اطراف خواتین و بچے جانبحق ہوئے۔
ان حملوں کے باعث ایران و پاکستان شدید تنقید کا سامنا کررہے ہیں جہاں دونوں اطراف آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا۔
ایران کی تازہ کارروائیوں کے بعد خطے میں اسرائیل حماس جنگ کی وجہ سے پھیلنے والی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
امریکہ کی ایران کو وارننگ فراہم کرنے کی خبر سب سے پہلے وال اسٹریٹ جرنل نے دی تھی۔
یاد رہے کہ داعش خراسان کے ہزاروں ارکان ہیں اور یہ گروپ طالبان کا سب سے بڑا دشمن اور سب سے بڑا فوجی خطرہ ہے۔
طالبان کے افغان حکومت پر قابض ہونے کے بعد سے اس گروپ نے افغانتسان اور اس سے باہر حملے کیے ہیں۔
داعش خراسان اگست 2021 میں کابل ہوائی اڈے پر ہونے والے خودکش بم دھماکے میں بھی ملوث تھی، اس حملے میں افغانستان سے امریکی انخلاء کے دوران 13 امریکی فوجی اور تقریباً 170 افغان ہلاک ہوئے تھے۔