ہمارے احتجاجی کیمپ کو سبوتاژ کرنے کے لئے سرکاری کیمپ قائم کرکے زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کی مترادف ہے – بلوچ یکجہتی کمیٹی
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں نے بدھ کے روز اسلام آباد پریس کلب کے سامنے قائم احتجاجی کیمپ سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا آج ہمارے بلوچ نسل کشی کے خلاف جاری تحریک کا 48 واں دن ہے، اور ہم یہاں 500 سے زیادہ متاثرہ خاندانوں، طلباء اور مختلف علاقوں سے متعدد حامیوں کے ساتھ یہاں دھرنا دئے ہوئے ہیں اور ہم اسلام آباد کے شہریوں کے غیر متوقع لیکن انمول تعاون کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا چونکہ ہمیں ایک جوابی دھرنے کا بھی سامنا ہے جس کا مقصد متاثرہ خاندانوں کی ذہنی طور پر ہراسانی کا نشانہ بنانا ہے ہم کیمپ میں موجود افراد کے لیے نفسیاتی مشاورت کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلوچ نسل کشی کے خلاف مارچ کے منتظمین کا کہنا تھا بلوچستان کے متاثرین اس وقت پورے خطے میں احتجاج کر رہے ہیں، ہم اجتماعی طور پر یہ تکلیف برداشت کر رہے ہیں خاص طور پر اس کیمپ میں موجود خاندانوں کو ایسا لگتا ہے کہ ریاستی مشینری ہمارے حالات سے ہیرا پھیری کررہی ہے-
انہوں نے کہا جب ہمارا مارچ اسلام آباد کی طرف روانہ ہوا تو تمام شرکاء کو گرفتار کرنے کے منصوبے بنائے گئے اسلام آباد پہنچتے ہی ہمیں تشدد کے بعد گرفتار کرکے تھانوں میں ہمارے انگھوٹوں کے نشانات لگوائے گئے اور ہمارے معلومات اکھٹے کرنے کے بعد ہمارے 34 ساتھی جن میں ظہیر بلوچ شامل تھیں کو گرفتاری بعد انکے اہلخانہ تک پہنچے اور انکا بھی ڈیٹا جمع کیا گیا اور انھیں حراسگی کا نشانہ بنایا گیا ایسے واقعات اسلام آباد میں لاقانونیت کی صورتحال کو نمایاں کرتی ہے اور ملکی عدالتیں ان غیر قانونی کاروائیوں کی حمایت شریک نظر آتے ہیں-
انہوں نے کہا ڈی جی خان اور تونسہ سمیت مختلف علاقوں میں بلوچ مظاہرین کے خلاف بغاوت کے الزامات سمیت متعدد ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، انسانی حقوق کے ارکان اور ہماری کیمپ کو کوریج کرنے والے صحافیوں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں انھیں تشدد اور سوشل میڈیا ٹرولز کا سامنا ہے ہمارے دھرنا کیمپ کی حمایت کرنے کی کوشش کرنے والا منظور پشتین اب تک نظر بند ہے فوج، انٹیلی جنس ایجنسیاں، عدالتیں اور سیاسی جماعتیں ان واقعات میں شامل ہیں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کیمپ کو سبوتاژ کرنے میں ملوث نظر آتی ہیں، جو ایک نوآبادیاتی بلوچستان کی کہانی کو ثابت کرتی ہے-
منتظمیں نے کہا ہم نے خضدار کی اجتماعی قبروں کے صورت میں ان واقعات اور اپنے جبری لاپتہ پیاروں کی لاشوں کو مسخ شدہ حالات میں پھینکے جانے کا مشاہدہ کیا ہے، جو انسانی زندگی کے لیے بے توقیری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہ کاروائیاں ڈیتھ اسکواڈز کے ذریعے کیے گئے ہیں جو بلوچستان ریاستی مشینری کی مدد کرتے ہیں ہم بلوچ عوام ان غیر انسانی، پیشہ ور قاتلوں کا سامنا کر رہے ہیں جنہیں ڈیتھ اسکواڈ کہا جاتا ہے اب ہمیں اسلام آباد کے لوگوں کی فکر ہے جب سے انھیں اسلام آباد میں لاکر ریاست کی جانب سے بٹھایا گیا ہے وہ ہمارے اس پرامن احتجاج کو سبوتاژ کرنے کے لئے کچھ بھی حرکت کرسکتے ہیں اور خاص کر اسلام آباد کے شہریوں کے حفاظت کو ان ارکان سے خطرہ ہے بلوچستان میں رہنے والے جانتے ہیں کہ ڈیتھ اسکواڈز کا جوابی کیمپ کس قدر تشویشناک ہے، جسے نام نہاد عوامی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل ہے کچھ سیاسی جماعتیں اس کا مذہبی شکل بنانے کی کوشش کر رہی ہیں، اور جوابی کیمپ میں بیٹھی ایک اور جماعت خاندانوں کو ہراساں کرنے کے لیے تشدد پسند لوگوں کی حمایت کررہے ہیں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں اور احتجاج کرنے والوں کو دھمکا رہے ہیں-
انہوں نے کہا اس مارچ کے دوران ہی بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تقریباً 40 بلوچوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے، ایسے واقعات بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پریشان کن حالات کو ظاہر کرتے ہیں جبکہ کل ہی پاکستانی فورسز نے بلوچستان کے شہر تمپ دازن میں کاروائی کرتے ہوئے حسن ولد آصف اور جاسم ولد محمد بخش کو جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے-
دوسری جانب آج علی الصبح تونسہ شریف سے یونین کونسل فضلہ کے چیئرمین محمد اسلم بلوچ ان کے بیٹے اور رسول بخش بلوچ نامی دو سیاسی کارکنوں کو صبح آٹھ بجے اغوا کر لیا گیا۔ ہمیں ان کی خیریت کے بارے میں گہری تشویش ہے کیونکہ انہیں آج تونسہ شریف میں اسلام آباد دھرنے کی حمایت میں کئے جانے والے احتجاج کو روکنے کے لئے اغواء کیا گیا ہے-
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں نے کہا کیمپ میں سخت موسمی حالات، محدود وسائل، صحت کے مسائل، اور صفائی کی مناسب سہولیات کی عدم موجودگی سمیت دیگر مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود، ہم پرامن ہیں ہم بین الاقوامی صحافیوں، میڈیا اور دانشوروں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اسلام آباد آکر ہمارے احتجاجی کیمپ کا دورہ کریں، ہماری کہانیاں بیان کریں اور بلوچستان کی صورتحال پر روشنی ڈالیں۔
انکا کہنا تھا ہم گذشتہ کئی روز سے سخت حالات اور موسمی مسائل کا سامنا کررہے ہیں البتہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی مظاہرین کو سہولیات اور سیکورٹی فراہمی کے حکم کے باوجود ہمیں اب تک بنیادی سہولیات فراہم نہیں کئے گئے جو 500 سے زائد متاثرہ خاندانوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کی مترادف ہے-
انہوں نے کہا ہم انسانی حقوق کے نوٹس میں یے لانا چاہتے ہیں کے ہمارے احتجاج میں شامل شرکاء پر ریاستی اداروں کی جانب سے نظر رکھی جارہی ہے کیمروں اور لائے گئے ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے انکی پروفائلنگ ہورہی ہے عالمی تنظیمیں کسی بھی خطرے سے بچانے کے لئے ہمارے احتجاج سے آگاہ رہیں ہم انسانی حقوق کے بین الاقوامی نمائندوں، سفیروں اور صحافیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر اکر اسلام آباد کے سامنے قائم ہمارے اور سرکاری کیمپ کا معائنہ کرے اور فرق واضح ہوجائے گا اور ہماری کیمپ میں صحت اور سلامتی کے خدشات کو دور کریں۔
انہوں نے مزید کہا بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کیمپ میں موجود خاندانوں کو فوری توجہ کی ضرورت ہے، بشمول نفسیاتی مشاورت اور بین الاقوامی اداروں کی مدد کریں اور نیشنل پریس کلب کے قریب انٹرنیٹ کی بندش ہماری مصائب میں اضافہ کرتی ہے، اور ہم بین الاقوامی برادری سے مداخلت کرنے اور ہمارے خدشات کو دور کرنے میں مدد کرنے کی درخواست کرتے ہیں دھمکیوں، ہراساں کیے جانے، میڈیا پر جاری بلیک آؤٹ، اور انٹرنیٹ کی بندش کے عالم میں-
انہوں نے آخر میں کہا ہم عالمی برادری سے یکجہتی چاہتے ہیں تاکہ بلوچستان کے حقائق کو سامنے لایا جا سکے اور ہزاروں متاثرہ افراد کی زندگیوں کی حفاظت کی جا سکے۔ آپ کی فوری توجہ اور تعاون انصاف اور انسانی حقوق کے لیے ہماری جدوجہد میں نمایاں تبدیلی لاسکتا ہے۔