پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد پریس کلب کے باہر بلوچ نسل کشی کے خلاف احتجاج آج 45 ویں روز جاری ہے۔ جس میں بلوچستان سمیت خیبر پختونخواہ سے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کی بڑی تعداد شریک ہے۔
اتوار کے روز بلوچ رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بتایا کہ جبری لاپتہ افراد کے کیمپ کے نزدیک بلوچ لواحقین کو ہراساں اور نقصان پہنچانے کیلئے کسی کیمپ کے نام پر ٹینٹ لگائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہم اسلام آباد کی انتظامیہ، عدلیہ اور پارلیمان سینٹ کو باور کراتے ہیں کہ بلوچ لاپتہ افراد کے کیمپ میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں بشمول
ہمارے بلوچ نوجوان ، عورتوں اور بچوں کو نقصان دینے یا ناخوشگوار واقعے کی یہ تمام ادارے ذمہ دار ہونگے۔
بتایا جارہا ہے کہ اسلام آباد پریس کلب کے باہر بلوچ لاپتہ افراد کے لانگ مارچ اور دھرنے کو سبوتاژ کرنے کیلئے ریاستی اداروں اور حکومت بلوچستان نے بلوچستان سے سرکاری حمایت یافتہ گروہ کے افراد جمع کرکے کیمپ میں بیٹھے لواحقین عورتوں اور بچوں کو ہراساں کرنے کیلئے کیمپ کے ساتھ آکر ٹینٹ لگانے کی کوشش کی ۔
بلوچ مظاہرین نے بتایا کہ آج پھر سرکاری پروٹوکول سے ہماری کیمپ کے سامنے حکومتی حمایت یافتہ افراد کو جمع کیا گیا ہے ۔
انہوں نے کہاکہ لاپتہ افراد کے کیمپ میں بیٹھے بلوچ عورتوں اور بچوں کو ہراساں کرنے کیلئے ان لوگوں کو بلوچستان سے بلاکر یہاں جمع کیا گیا ہے۔
بلوچ مظاہرین نے بتایا کہ حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ وہ ہمارے مطالبات سننے کے بجائے مسلح گروہوں کے لوگوں کو یہاں جمع کرکے لواحقین کو تنگ کررہے ہیں ۔
واضح رہے کہ آج اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بلوچستان سے بلوچستان کے نگران سابقہ وزیر جمال رئیسانی کی قیادت میں بلوچ مظاہرین کے کیمپ سامنے کچھ لوگوں نے احتجاج کرکے لواحقین کو ہراسان کرنے کی کوشش کی ۔ جن میں سرکاری حمایت یافتہ مسلح گروہ کے فرید رئیسانی اور دیگر شامل تھے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بتایا کہ ہمارے احتجاج میں بیھٹے ہرشخص کو سیکورٹی خطرات لاحق ہیں اگر کسی لواحقین کو کچھ نقصان ہوا تو ذمہ دار حکومت ہوگا۔