اسلام آباد میں بلوچ نسل کشی کے خلاف جاری دھرنے سے بلوچستان اظہار یکجہتی کے طور پر بلوچستان بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
پیر کے روز بلوچستان کے مختلف علاقوں خضدار، وڈھ، گریشہ ، ناگ اور بولان میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے جن میں خواتین کی بڑی تعداد شریک تھیں، ان مظاہروں میں جبری لاپتہ بلوچوں کے لواحقین بھی شریک تھیں۔
ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین نے اسلام آباد بلوچ مظاہرین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کی فیکٹ فائنڈ مشن بلوچستان بھیجا جائے۔
مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ ریاست بلوچ کش پالیسیوں کا تسلسل بند کرکے بلوچ جبری لاپتہ افراد کو بحفاظت بازیاب کرے اور انہیں عدالتوں میں پیش کرے۔
انہوں کہاکہ لوگ کئی سالوں سے لاپتہ ہیں، انکے خاندان اذیت سہ رہے ہیں ۔سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں لیکن ریاست غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو گھروں سے اٹھا کر لاپتہ کررہا ہے اور بعد میں انکار کرتا ہے جو کسی بھی ریاست کا دستور نہیں ہے۔
وہاں خضدار کے تحصیل وڈھ میں عوامی سمندر امڈ آیا ہے ، جس میں خواتین کی بہت بڑی تعداد شریک تھی۔ وڈھ مظاہرین نے ڈیٹھ اسکواڈ کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے سرکاری سرپرستی میں مسلح گروہوں کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ کیا۔
واضح رہے کہ وڈھ حکومتی حمایت شفیق مینگل کے محاصرے میں رہا ہے ۔ مظاہرین نے کہاکہ آج وہ ڈر اور خوف کو پاؤں تلے روند کر زندہ رہنے کی جدوجہد میں باہر نکل آئے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس وقت بلوچ نسل کشی کے خلاف جاری تحریک ملک بھر میں خصوصاً بلوچستان میں ایک بہت بڑے پیمانے پر روان ہے۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان بھر میں اس تحریک کو حاصل عوامی حمایت اس بات کی نشاندہی ہے کہ بلوچ عوام اب ریاستی ظلم سے مکمل تنگ آچکی ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس تحرک کا مقصد عالمی دنیا تک بلوچ نسل کشی کی سوانحات کے قصیدے پہنچانے ہیں، جو کہ کامیابی کے ساتھ پہنچ رہے ہیں۔ ملک بھر میں جاری احتجاجی مظاہروں کے سلسلے میں کل تمپ، گوادر، اورماڑہ، پسنی، گڈانی، منگچر اور دشت میں احتجاجی مظاہرے کیے جائینگے۔