مغربی بلوچستان میں حملوں کے لیے پاکستان نے ڈرونز سمیت پانچ قسم کے ہتھیار استعمال کیے

717

پاکستان فوج نے ایران کے علاقے سراوان میں جمعرات کی شب و علی الصباح کیے گئے حملے کی تفصیلات جاری کردی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج نے حملے کے لیے ڈرون طیاروں سمیت 5 قسم کے ہتھیار استعمال کیے۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ 18 جنوری 2024 کے ابتدائی اوقات میں، پاکستان نے ایران کے اندر ان ٹھکانوں کے خلاف مؤثر حملے کیے جو پاکستان میں حالیہ حملوں کے ذمہ دار دہشت گردوں کے زیر استعمال تھے۔

بیان میں دعویٰ گیا کہ ٹھیک ٹھیک نشانے پر مبنی حملوں میں مسلح ڈرونز، loitering munition راکٹوں، بارودی سرنگوں اور اسٹینڈ آف ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔

واضح رہے کہ loitering munition کی اصطلاح ان ہتھیاروں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو خود ہدف تک پہنچتے ہیں اور اس سے ٹکرا کر تباہ ہو جاتے ہیں۔ خودکش ڈرونز بھی اسی طرح کا ہتھیار ہیں۔

اسی طرح اسٹینڈ آف ہتھیار وہ ہوتے ہیں جو حملہ کرنے والے فوجیوں کو اتنا محفوظ فاصلہ رکھ کر حملہ کرنے کی سہولت دیتے ہیں کہ حملہ آور فوجی جوابی فائرنگ سے بچ سکیں۔

آئی ایس پی آر کے دعوؤں کے برعکس علاقائی ذرائع و رپورٹس کے مطابق حملوں میں کم از کم دس افراد جانبحق ہوئے ہیں جن میں اکثریت خواتین و بچوں کی ہے۔

سماجی رابطوں کی سائٹس پر شائع تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ شیرخوار بچوں سمیت دیگر کمسن بچے ان حملوں میں جانبحق ہوئے ہیں۔

بلوچ سماجی و سیاسی حلقے ایران و پاکستان دونوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ دونوں ملک فوجی اہداف کے بجائے عام بلوچ آبادیوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اسلام آباد میں آج پریس کانفرنس میں کہا کہ بلوچستان ایک جنگ زدہ خطہ ہے جہاں روز بلوچ بچے، عورتیں، بوڑھے، جوان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ حال ہی میں ایران نے بلوچستان کے علاقے پنجگور میں میزائل اور ڈرون حملے کیے جہاں دو معصوم بچے شہید ہوئے اور اس کے بعد آج صبح مغربی (ایران کے زیرانتظام) بلوچستان میں متعدد مقامات، شمسر، حق آباد، اونگ و دیگر میں پاکستان فوج نے بمباری کرکے عام آبادی کو نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ فوجی بمباری کے نتیجے میں تاحال دس کے قریب افراد جانبحق ہونے کی اطلاعات ہیں جن میں اکثریت خواتین و بچوں کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حملہ آدھی رات کو اس وقت کیا گیا جب خواتین و بچے اپنے گھروں میں سو رہے تھے جبکہ صبح ایک بار لوگوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ ملبے سے لاشوں و زخمیوں کو نکالنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ بمباری گولڈ سمڈ لائن کے دونوں اطراف بلوچ نسل کشی کی واضح عکاسی کرتی ہے۔