33جنگی حکمت عملی ۔ تبصره منیر بلوچ

447

33 جنگی حکمت عملی
 تبصره: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

زیر نظر کتاب رابرٹ گرین کی تحریر کرده ہےجسے عارف صدیقی نے اردو ترجمہ کرکے شائع کیا. اس کتاب میں 33 جنگی حکمت عملیوں کے بارے میں بیان کیا گیا ہے جبکه اس کتاب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے.

حصه اول میں چار عنوان پر بحث کیا گیا ہے، حصه دوئم جو تنظیمی جنگ کے بارے میں هے اس حصے میں تین عنوان کو شامل بحث کیا گیا ہے. حصه سوئم دفاعی جنگ کے بارے میں ہے جهاں چار عنوانات موضوع بحث ہے.حصه چهارم میں گیاره موضوعات شامل ہیں جبکه پانچویں اور آخری حصے میں غیر روایتی جنگ جسے ڈرٹی وار کها جاتا هے جو دماغی و نفسیاتی جنگ کا حصه ہے شامل کتاب هے جسکے گیاره مضمون ہے۔

حصه اؤل میں کچھ ایسے بنیادی افعال کا تذکره موجود ہے جو کسی انسان کی ضرورت هے، کسی تنظیمی قیادت کے لئے ناگزیر ہے.‌کوئی بھی انسان خامیوں سے مبرا نہیں هوتا لیکن ان خامیوں کو نظر انداز کرکے پر سکون هونا ایک انسان و قیادت کو نقصان سے دو چار کردیتا ہے ۔اس لئے اسے سب سے پہلے اپنے آپ سے، اپنے اندرونی دشمن سے لڑائی لڑنا پڑتی ہے. اپنے دشمن کے خلاف سوچ کو وسیع کرکے نئی حکمت عملی کی بنیاد اور اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے دل میں دشمن کے لئے نفرت پیدا کرنے کی حکمت عملی اچھی شئے ہے، حاضر دماغی، اپنے آپ پر انحصار ،ہنگامی اور اشد ضروری کام ، بے وقوفوں کو برداشت کرنا اور خوف کے احساس کا خاتمه حصه اول کے اهم حصے ہیں ، تنازعات کا‌سامنا‌کرنا‌ اور اپنا وقت چھوٹے کاموں کے بجائے بڑے کاموں پر خرچ کرنا چاہئیے.مصنف کهتا ہے که کوئی جنگ آخری نہیں هوتی اور کسی جنگی اصول‌ پر عمل نهیں هوتا اس لئے ہر جنگجو میں یه فن موجود ہو که وه جدید دور کے مطابق اپنی جنگی حکمت عملیوں کو تبدیل کریں تاکه جنگ میں اپنی چالیں چلنے اور جنگ میں حالات کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا جاسکے.

مصنف کهتا ہے که سب کچھ داؤ پر لگا کر حمله کردیں اور موت کے خوف کا خاتمہ کریں کیونکه موت کی کوئی اهمیت نهیں لیکن ایک شکست خورده زندگی جینا روز مرنے جیسا ہے.صفحه 36(نپولین بونا پارٹ)

حصه دوئم جو تنظیمی جنگ(گوریلا جنگ) کے متعلق ہے۔ تین موضوعات پر مشتمل ہے۔

کوئی بھی تنظیم ایک چین اینڈ کمانڈ پر مشتمل ہوتی ہے اور هر عہدے دار اپنی ذمه داریوں متعلق خدمات تنظیم کے سپرد کرتا ہے اور جمهوری طریقہ کار بروئے کار لا کر تنظیمی امور سر انجام‌ دیتا ہے لیکن ایک جنگی تنظیم ایک مختلف پروسس سے گزرتی ہے جس میں اعلی قیادت کو اعتدال پسندانه رویے کے ذریعے تنظیمی امور کو آگے لیجانا هوتا ہے کیونکه تنظیموں میں آمرانه روش اور زیاده نرمی نه صرف قیادت کو نقصان پہنچاتی ہے بلکه تنظیم کو بھی نقصان کا احتمال هوسکتا ہے۔
مصنف کہتے ہیں درست لوگوں کو درست مقام پر تعینات کریں ایسے لوگ جو آپکے خیالات پر عمل کریں اور بالکل کٹھ پتلی نه ہوں.
مذید کهتے هیں که لوگوں میں یه احساس پیدا کریں که وه ہر عمل کا حصه ہے لیکن اجتماعی فیصله سازی سے بچیں. خود کو انصاف کا نمونه بنا کر پیش کریں لیکن کبھی اصل اختیار اور طاقت سے دستبردار نه ہوں.
صفحه 41
قیادت کی خوبیوں کو اجاگر کرنے کے لئے مصنف کهتا ہے که اس بات کو یقینی بنائیں که آپکی بنائی هوئی ٹیم آپ کے فیصلوں پر غیر ضروری طور پر اثر انداز نه ہو.
مزید مشورہ دیتے هیں که قیادت اپنے تنظیم میں موجود خود غرض اور شرپسند عناصر کو پہچانیں اور انہیں پنپنے مت دیں.
صفحه‌43
وه اجتماعی جنگ حکمت عملی کے خلاف ہے وه کهتا ہے که اجتماعی حکمت عملی جنگی حکمت عملی کی خلاف ورزی ہے۔
تنظیم میں ابتری اور افراتفری کو قابو پانے کے لئے مصنف مفید مشوروں سے نوازتا هے وه کہتا هے که تنظیم میں اپنے طاقت کو بانٹ دیں اور انہیں صرف یه بتائیں که کیا کرنا ہے یه مت بتائیں که کیسے کرنا هے.
ٹیم کے ارکان کا‌ حوصله بڑھانا ، ان کے روابط بڑھانا انہیں اس بات کا احساس دلاتا هے که کیا کرنا ہے.

مصنف صفحه نمبر 51 میں کہتے ہیں که اپنے سپاهیوں کے ساتھ گهری دوستی اور سب کے ساتھ برابری کا برتاؤ نظم و ضبط کو تباه کردیں گا.
جنگ جیتنے کے لئے ضروری هے که آپ کے پاس ایک مقصد ہو اور اس مقصد کو مقدس جنگ میں تبدیل کرنے کا فن قیادت کو آنا چاہیے که وه کس طرح یک مشت کرکے اپنے سپاهیوں کا نه صرف مورال بلند کرسکتا ہے بلکه وه انہیں ایک عظیم مقصد کا احساس بیدار کرکے جنگ کو مقدس بناسکتا ہے۔

رابرٹ گرین آٹھ سنهری اصول کا ذکر کرتا ہے که ان سنهری اصولوں پر کار بند ره کر قیادت اپنے سپاہیوں میں جذبه بیدار کرسکتا ہے۔
1.اپنی ٹیم کو کسی مقصد کے گرد متحد کریں انهیں کسی نظرئیے کے لئے لڑائیں.
2.لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھیں.
3.بالکل سامنے ره کر قیادت کریں.
4.ان کی توانائی کو مرکوز رکھیں.
5.ان کے جذبات سے کھیلیں.
6.سختی اور نرمی کا امتزاج رکھیں.
7.ٹیم کی ایک تاریخ بنائیں.
8.شکایات کرنے والوں کے ساتھ بے رحمی سے پیش آئیں.

کتاب کا تیسرا حصه دفاعی طرز جنگ کے متعلق ہے.
اس باب میں مصنف ان امور کی جانب توجه دلاتا ہے که وسائل کا استعمال کیسے کرنا ہے.مقاصد اور وسائل میں توازن هونا چاہئیے. دفاعی طرز میں یه جاننا ضروری ہے که کب پسپائی اختیار کرنا ہے اور کب دشمن پر حمله کرکے اسے کاری ضرب لگانا ہے.جنگ نه صرف ایک علم ہے بلکه جنگ حقائق کا نام ہے جو نه صرف دوست و دشمن کی پهچان کراتا ہے بلکه زندگی جینے کا شعور و سلیقه بھی عطا کرتا ہے.دفاعی طرز کی جنگ میں دشمن کو وهی دینا ہےجو وه آپ کو دیتا ہے لیکن ضروری ہے که دشمن کے فطری اندیشوں اور خوف سے فائده اٹھا کر دشمن کو دھوکے میں رکھ کر اپنی طاقت دکھانا چاہئیے.

دشمن پر اپنی دھاک بٹھانے کے لئے مصنف کچھ تجاویز پیش کرتا ہے که دشمن پر ایسا تاثر پیدا کریں که آپ کمزور هونے کے باوجود کمزور نهیں ہے دشمنوں کو کبھی اپنے کمزوری کا علم نه هونے دیں.دشمن کو ایسا سوچنے پر مجبور کریں که وه یه سمجھے که اگر آپ هار بھی گئے تو دشمن کو ساتھ لے ڈوبیں گے ، آپکی کمزوری اور پیچھا چھڑانا آپکے لئے تباهی کا نسخه ہے. اپنے خوف کو دشمن میں منتقل کرکے اسے ضرب لگائیں تاکه اسے احساس هو که آپ کسی حد تک بھی جاسکتے هیں.اسکی نفسیاتی کمزوریوں سے فائده اٹھائیں اور کبھی ایسی چالیں چلیں که دشمن کو کسی اور کے ذریعے اپنی حکمت عملی کے بارے میں بتائیں تاکه وه خوفزده هوجائے.

باب چہارم جارحانه طرز جنگ کے متعلق ہے جس کے گیاره مضامین ہے۔
جارحانه طرز جنگی حکمت عملی کے کچھ اصول ہے جن کو مصنف نے اپنی کتاب میں جگه دی ہے. مصنف کهتا ہے که اپنی توجہ ہمیشه ہدف پر رکھیں اور ہدف پر توجه دینے کے لئے ضروری اقدام اٹھانا نہایت ہی موثر امر ہے. کوشش ہو که دشمن کی جڑ پر وار کرنے کی کوشش کریں اور کبھی ظاہری چیز کو حقیقیت سمجھنے کی حماقت نه کریں. جب کوئی جنگ آپ پر مسلط ہے تو دنیا کو همیشه دشمن کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں اور اس جنگ میں آپ کا جو بھی روئیه هو اس کے اثرات سیاسی هونے چاہئیے.خفیه معلومات کی حکمت عملی کے تحت دشمن کی پهچان ، اسکی سوچ اور ارادوں کو سمجھنے کے علاوه لوگوں کا مطالعه کریں.

اچانک حملے کے ذریعے دشمن کی کمزور پہلو تلاش کرکے مزاحمت کو کچلنا نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ جارحانہ جنگ میں عمل میں برق رفتاری اور قوت فیصلے کی طاقت دشمن کو شکست کے دہانے پر پہنچاتی ہے۔ مصنف صفحہ نمبر ۱۱۱ میں کہتے ہیں کہ مئی ۱۹۴۰ میں جرمن آرمی نے اچانک حملے کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے فرانس اور دوسرے زیریں ممالک پر قبضہ کرلیا۔ناقابل یقین تیز رفتار ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں کی انتہائی پیش قدمی کی بدولت یہ دنیا کی فوجی تاریخ کی تیز رفتار ترین اور سب سے تباہ کن فتح ثابت ہوئی۔

دشمن کو دباؤ میں رکھ کر جنگ پر کنٹرول حاصل کرنا اور جنگی میدان کا تعین اپنی مرضی سے طے کرکے دشمن پر غلبہ حاصل کرکے اسکی دکھتی رگ پر وار کرنا ،دشمن کو مکمل شکست دینے کے لئے اسے تقسیم کرکے فتح پانا اور رابطوں کو منقطع کرنا اور دشمن کی سمت بدل کر مختلف اطراف سے حملہ آور ہونا اس باب کے اہم موضوعات ہیں۔
مصنف اس کتاب میں جنگ کے متعلق کچھ مفید مشوروں سے نوازتے ہوئے کہتے ہیں کہ دشمن کو تباہ کرنے کے بجائے کمزور کرنے کی حکمت عملی پر کام کرنا چاہئیے۔جبکہ ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے جنگ کا نتیجہ اپنے حق میں بدلنے کا بھی مشورہ دیتے ہیں۔
نفسیاتی طور پر جنگ کیسے جیتی جاتی ہے مصنف اس حوالے سے چار اصول کے بارے میں بتاتے ہیں جن میں کثیر الجہتی پالیسی، تذبذب،افراتفری اور لچک کا ذکر ہے۔باب کے آخری مضمون میں معاملات انجام تک پہنچانے کے لئے کچھ تجاویز دیتا ہے وہ کہتا ہے کہ منصوبے کا آغاز ہمیشہ منصوبہ بندی کے ساتھ ہونا چاہئیے اور جنگی رہنماوں کے لئے یہ علم رکھنا بہت ضروری ہے کہ کب انہیں جنگ روک کر مذاکرات کی طرف جانا ہے۔

باب چہارم کا ایک عنوان سیاسی و سفارتی جنگ کے متعلق ہے۔جس میں مصنف ان امور پر توجہ دلاتا ہے کہ جنگ کے دوران فائدہ حاصل کرنے کے لئے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے اور ایسے مذاکرات میں ہمیشہ سخت گیر موقف رکھنا چاہئیے تاکہ مذاکرات کے دوران دشمن کو آپکی پوزیشن کا ادراک ہو اور وہ اس مذاکرات سے فائدہ حاصل نہ کرسکیں۔

مذاکرات ہمیشہ طاقت اور بہتر مقام حاصل کرنے کے لئے ہوتے ہیں اور اس مذاکرات میں اپنی شرائط منوانے کے لئے لازمی ہے کہ دشمن پر بے رحمانہ دباؤ اور پیش قدمی کو جاری رکھنا چاہئیے۔صرف عملی اقدامات اور پیش قدمی سے دشمن پر دباؤ برقرار رکھا جاسکتا ہے۔
مصنف برطانوی سفارت کار نکلسن کا حوالہ دیکر کہتے ہیں کہ دنیا میں دو طرح کے مذاکرات کار ہوتے ہیں۔ جنگجو اور دکاندار یا بیوپاری۔جنگجو مذاکرات کار وقت حاصل کرنے کے لئے مذاکرات کرتے ہیں جبکہ دکاندار فریقین کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے مذاکرات کرتے ہیں۔ (صفحہ 154)

باب نمبر پانچ غیر روایتی جنگ یعنی ڈرٹی وار کے متعلق ہے جس میں نفسیاتی اور سیاسی چالبازیوں کے ذریعے انوکھے حربے استعمال کئے جاتے ہیں اور دشمن پر نفسیاتی گہرا تنگ کرکے اسے شکست سے دو چار کیا جاتا ہے۔

دشمن کو نفسیاتی مریض بنانے کا فن ہی اس طریقہ جنگ کا مرکز و منبع ہے۔ اچانک حملے کے ذریعے دہشت پھیلانا،ایسی چالیں چلنا جس کی دشمن کو بالکل بھی توقع نہ ہو، اسکے علاوہ اخلاقی برتری حاصل کرنے کے لئے دشمن کو بدنام کرنے کے لئے اخلاقی برتری کا فن سیکھ کر دشمن کو اخلاقی شکست دینا نفسیاتی جنگ کا خاصہ ہے۔۔
اس جنگ میں مصنف کہتا ہے کہ کوئی ہدف نہ رکھیں بلکہ وہ اس جنگ میں برتری حاصل کرنے کے لئے چھ اہم طریقے تجویز کرتا ہے۔
۱۔نقلی محاذ جنگ
۲۔نقلی حملہ جس میں حملے کی جگہ کے بجائے ہدف کہیں اور ظاہر کریں۔
۳۔پوشیدہ ہونا
۴۔واقعات کی ذہنی ترتیب۔ ترتیب سے حملہ کریں جب اندازہ لگ جائے تو ترتیب توڑ دیں۔
۵۔گمراہ کن معلومات
۶۔فریب میں چھپا فریب
گوریلا جنگ کی اصل طاقت اور برتری نفسیاتی اثرات میں پنہاں ہے۔گوریلا جنگ میں وقت کو بطور ہتھیار استعمال کرکے جنگ کو طول دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر مسلسل اتحادی تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو وقت کے لحاظ سے آپکی ضروریات کو پورا کریں تاکہ آپ کی توانائی مختلف جہتوں پر اثر انداز ہو۔ مصنف کہتا ہے کہ اندرونی و بیرونی محاذ کے ذریعے دشمن کو دفاع پر مجبور کیا جائے تاکہ وہ خود کو تباہ کرسکیں۔ لیکن جذباتی اتحاد کے بجائے ایسے دوست تلاش کریں جو ضرورت کے مطابق ہو۔
بے صبری کے بجائے قدم قدم آگے بڑھیں جلدی فتح حاصل کرنے کی کوشش محض غلطیاں کرواتے ہیں۔مخالفین کے دل و دماغ میں گھس کر دشمن کو اندر سے تباہ کردیں اس کے لئے دشمن کے صف میں جگہ بنا کر خوف پھیلائیں۔
دشمن پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے اپنے جارحانہ سوچ کو خفیہ رکھیں اور اپنی کمزوری کا مظاہرہ کریں اور غیر فعال جارحیت کی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے خود کو دوسروں سے ممتاز کرنے کی کوشش کریں۔اپنے حواس کو قابو میں رکھ کر ایسے دہشت زدہ افعال سر انجام دئیے جائیں جس سے دشمن میں بے یقینی اور افراتفری جنم لیں۔

حروف آخر::

پانچ ابواب پر مشتمل تینتیس جنگی حکمت عملی ایک ایسی کتاب ہے جو ہر دور کے جنگجوؤں کے لئے ایک تکنیکی و نفسیاتی نسخہ ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ اس لئے بھی ایک نو آبادیاتی نظام سے متاثرہ سماج کے لئے ضروری ہے کیونکہ اس میں گوریلا جنگ،دفاعی جنگ اور جارحانہ جنگ کے علاوہ نفسیاتی، سیاسی و سفارتی پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ جنگ سے منسلک افراد و سیاسی کارکنان اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں کیونکہ جنگ سیاست کا حصہ ہے اور سیاست کب کیا رنگ میں سامنے آئیں کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی اس لئے ہر طرح کے ہنگامی حالات میں تیار رہنا ضروری ہے اور جنگ کسی بھی وقت کس خطے کو کس ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔