ایک اعلیٰ یورپی عہدیدار نے بدھ کو کہا ہے کہ ترکیہ بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ ہو گیا ہے اور اگر وہ یورپی یونین سے کلیدی مراعات حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی بیان بازیوں کو ختم کرنا ہوگا۔
ترکیہ کے لیے یورپی پارلیمنٹ کے نمائندے ناچو سانچیز ایمور نے کہا کہ ترک حکومت کی خارجہ امور پر نازیبا گفتگو برسلز کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
ترکیہ اپنے شہریوں کے لیے یورپی ویزا تک رسائی کو آسان بنانے اور اس بلاک کے ساتھ 1995 کے کسٹم معاہدے کو اپ ڈیٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس سے برآمدات کو بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ بوریل نے گزشتہ ہفتے دونوں معاملات میں پیش رفت کی سفارش کی تھی۔
سانچیز ایمور نے ترکیہ میں حقائق تلاش کرنے کے اپنے مشن کے آخری دن ایک اور شرط کا اضافہ کرتے ہوئے استنبول میں صحافیوں کو بتایا کہ “جارحانہ اور دھمکی آمیز لہجہ استعمال کرنے سے گریز کرنا بلا قیمت اور آسان ہے۔”
ہسپانوی سوشلسٹ نے کہا، “آپ مکمل طور پر الگ تھلگ ہیں۔ آپ کا واحد حقیقی دوست آذربائیجان ہے۔”
سانچیز ایمور نے اپنے سفر کے دوران جیل میں قید سول سوسائٹی کے رہنما عثمان کاوالا سے ملاقات کی، جو ایک مخیر شخصیت ہیں جن کی نظربندی نے مغرب کے ساتھ ترکی کے تعلقات کو مزید خراب کر دیا ہے۔
سانچیز امور نے کاوالا کو ایک غیر معمولی شخصیت سے تعبیر کرتے ہوئے، ملاقات کی اجازت دینے پر انقرہ کی تعریف کی۔
اسی اثنا میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان جمعرات کو یونان کا غیر معمولی دورہ کررہے ہیں جس کا مقصد دونوں تاریخی حریفوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا ہے۔
انھوں نے مئی میں انتخابی مہم کے دوران مغرب کو بار بار تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور گذشتہ ماہ جرمنی کے دورے میں حماس کے ساتھ جنگ میں برلن کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کی مذمت کی تھی۔
اردوان نے مشرق وسطیٰ میں اپنے سب سے قریبی اور اہم اتحادیوں میں سے ایک قطر سے، اپنی حالیہ واپسی پر صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ اگر اسرائیل کے لیے تمام مغربی ممالک بالخصوص امریکا کی حمایت موجود نہ ہوتی تو ہمیں اس وقت اپنے خطے میں ایسی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
انہوں نے کہا، “رقوم، ہتھیاروں، گولہ بارود او رساز و سامان کی شکل میں ان ممالک کی لامحدود حمایت نے اسرائیل کو مغرب کے بگڑے ہوئے بچے میں تبدیل کر دیا ہے۔”
سانچیز ایمور نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی بیان بازی ترک عوام پر بخوبی کام کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں جانتا ہوں کہ ترکیہ کی خارجہ پالیسی کے بہت سے فیصلوں کے پیچھے داخلی عوامل ہوتے ہیں۔‘‘