غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی غرض سے نئے معاہدے پر بات چیت کے لیے امریکی انٹیلیجنس ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ نے اسرائیلی اور قطری حکام سے یورپ میں ملاقاتیں کی ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے امریکی حکام کے حوالے سے کہا ہے کہ سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنز نے منگل کو اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے سربراہ اور قطری وزیراعظم سے پولینڈ کے دارالحکومت وارسو میں ملاقات کی۔
نومبر کے اختتام میں جنگ بندی کی معیاد ختم ہونے کے بعد ان تینوں عہدیداروں کی منظرعام پر آنے والی یہ پہلی ملاقات ہے۔
ملاقات کے حوالے سے امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ ’مذاکرات اس مرحلے میں داخل نہیں ہوئے کہ جہاں معاہدہ ہونے کے قریب ہو۔ ہم روزانہ اس پر کام کر رہے ہیں۔‘
دوسری جانب امریکی سکریٹری دفاع نے بھی حماس کے خلاف بڑی جنگی کارروائیوں کو کم کرنے سے متعلق اسرائیلی عسکری رہنماؤں سے بات کی ہے۔
تاہم دو ماہ سے جاری تباہ کن بمباری اور لڑائی میں کمی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
اسرائیل کے قریبی اتحادی ممالک فرانس، برطانیہ اور جرمنی بھی جنگ بندی پر زور دے رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کی غلطی سے تین یرغمالیوں کی ہلاکت کے بعد ایک مرتبہ پھر تل ابیب میں مظاہرین کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں کہ حماس کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
امریکی حکام اگرچہ غزہ میں ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں لیکن پیر کو اسرائیلی حکام سے ملاقات کے بعد سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ’یہ اسرائیلی آپریشن ہے۔ میں یہاں (جنگ کی) ٹائم لائن یا شرائط پر احکامات جاری کرنے کے لیے نہیں ہوں۔‘
اسرائیلی حکام سے ملاقاتوں کے دوران لائیڈ آسٹن کے ہمراہ جوائنٹ چیف چیئرمین جنرل سی کیو براؤن بھی موجود تھے۔
لائید آسٹن نے کہا کہ اسرائیلی حکام کے ساتھ ملاقات میں ’اعلیٰ شدت کے آپریشن سے منتقلی‘ پر تبادلہ خیال کیا اور غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل بڑھانے پر بھی بات چیت ہوئی۔
امریکی حکام نے غزہ میں ٹارگٹڈ آپریشنز پر زور دیا ہے جن میں حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے علاوہ سرنگوں کو تباہ اور یرغمالیوں کو ریسکیور کیا جائے۔
لائیڈ آسٹن کے ہمراہ بات کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے کہا کہ ’جنگ میں وقت لگے گا۔‘
گزشتہ ہفتے یوو گیلنٹ نے کہا تھا کہ اسرائیل کئی ماہ تک فوجی آپریشن جاری رکھے گا۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں امریکہ ویٹو کا حق استعمال کرتے ہوئے جنگ بندی کی مخالفت کر چکا ہے اور اسرائیلی کو اسلحے کی فراہمی میں پیش پیش رہا ہے۔
اسرائیلی حکومت پر عوامی دباؤ بڑھانے کی غرض سے حماس نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں عمر رسیدہ یرغمالی اسرائیل سے فوری رہائی کی التجا کر رہے ہیں۔
اسرائیل 19 خواتین اور دو بچوں کی پہلے رہائی کا کہہ چکا ہے جس کے متعلق حماس کا کہنا ہے کہ خواتین میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں جن کے بدلے میں زیادہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔
حماس اور دیگر عسکری گروپس کی حراست میں تقریباً 129 یرغمالی موجود ہیں، جبکہ حماس کا کہنا ہے کہ جنگ کے اختتام تک مزید یرغمالی رہا نہیں ہوں گے۔