کیچ ٹو شال
تحریر: عزیز سنگھور
دی بلوچستان پوسٹ
ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں جاری دھرنے میں شریک لواحقین اور دھرنا کے منتظمین نے تربت سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ اعلان دھرنے کے دوران ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ منتظمین کا کہنا تھا کہ بالاچ بلوچ اور شعیب بلوچ کے قتل کی ایف آئی آر درج نہ کرنے، دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی اور مستقبل میں مزید فیک انکاؤنٹر نہ کرنے خلاف لانگ مارچ کیا جائیگا۔ لانگ مارچ ضلع کیچ سے ہوتا ہوا پنجگورسمیت دیگر اضلاع سے کوئٹہ تک جائیگا۔ اس دوران وہ مختلف شہروں میں پڑاؤ اور سیاسی موبلائزیشن کرینگے۔ جس میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے بھی شریک ہونگے۔ تاکہ انہیں انصاف مل سکے۔
یہ مارچ اپنی نوعیت کا پہلا مارچ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی تربت سے کوئٹہ تک پاد شپاد (ننگے پاؤں) پیدل مارچ کیا گیا۔ ماضی کا پیدل مارچ بھی مذکورہ مطالبات پر مرکوز تھا۔ تاہم ان کے مطالبات پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ پاد شپاد مارچ کو ایک فرد نے سرانجام دیا تھا۔
ستائس فروری 2022 کو تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست نے تربت سے پاد شپاد لانگ مارچ کا آغاز کردیا تھا۔ جب گلزار دوست پچاس کلومیٹر طے کرکے شاپک کے علاقے میں پہنچ جاتا ہے۔ تو ان کے پاؤں میں کافی گہرے زخم آجاتے ہیں۔ پاؤں میں سوجن اور آبلے پڑتے ہیں۔ کیونکہ وہ ننگے پیر لانگ مارچ کررہے تھے۔
اس دوران گلزار دوست سے خواتین اور بزرگوں کے ایک وفد نے ملاقات کی۔ بالآخر وفد کی منت و سماجت پرگلزار دوست جوتے پہن کر پیدل مارچ کرنے پر راضی ہوجاتے ہیں۔
اس وفد میں بلوچ قلم کار اور فلم ڈائریکٹر ڈاکٹر حنیف شریف کی والدہ بی بی نسیمہ اور ان کی بہن سیدہ بی بی کے علاوہ آل پارٹیز کیچ کے کنوینر خان محمد جان، انجمن تاجران تربت کے صدر حاجی کریم بخش، بی ایس او کے ضلعی صدر بالاچ طاہر، تربت سول سوسائٹی کے جمیل عمر، غلام یاسین بلوچ، غلام اعظم دشتی، عبدالصمد بلوچ، کریم شمبے اور دیگر شامل تھے۔
میری ملاقات کبھی بھی ڈاکٹر حنیف شریف سے نہیں ہوئی۔ اور نہ ہی میں ان کے نام سے واقف تھا۔ 2005 میں کراچی پریس کلب کے سامنے ضلع کیچ کے علاقے مند سے تعلق رکھنے والے ابراہیم صالح اور گوہرام صالح کی فیملی کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں اچانک ایک خاتون کا اضافہ ہوا۔ اس وقت کے لاپتہ افراد ابراہیم صالح اور گوہرام صالح کی والدہ ماسی شمساتون نے مجھے بتایا کہ ان کے بیٹے کو جبری لاپتہ کردیاگیا ہے۔ ان کے بیٹے کا نام ڈاکٹر حنیف شریف ہے۔ پھر میں نے بی بی نسیمہ کے بیٹے کی جبری گمشدگی کے بارے میں معلوم کیا تو انہوں نےمجھے بتایا کہ اٹھارہ نومبر 2005 کو ان کے بیٹے کو ضلع کیچ کے شہر تربت سے لاپتہ کیاگیا اس زمانے میں، میں ڈیلی ٹائمز کراچی سے منسلک تھا۔ ڈاکٹر حنیف شریف کی ماں قرآن شریف پڑھتے ہوئے تصویر کے ساتھ ڈیلی ٹائمز میں اسٹوری دی۔ جو سٹی پیج کی لیڈ اسٹوری تھی۔ تاہم اس کی ماں کا احتجاج رنگ لے آیا۔ بالاآخر ڈاکٹر حنیف شریف 20 اپریل 2006 کو اے ٹی ایف جیل کوئٹہ سے بازیاب ہوگئے. یہ وہ دور تھا جب “مارو اور پھینک دو” کی پالیسی کا اجرا نہیں ہوا تھا۔ شاید اس لیے ڈاکٹر حنیف شریف زندہ لوٹ آئے۔
ڈاکٹر حنیف شریف بازیابی کے بعد انہیں اپنی جان بچانے کے لئے بلوچستان چھوڑنا پڑا۔ آج کل وہ بیرون ملک مقیم ہیں۔
گلزار دوست طالبعلمی کے دور میں طلبہ سیاست میں سرگرم رہے۔ انہوں طلبہ سیاست کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے کیا۔ وہ بی ایس او آزاد تربت زون کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ بعد میں وہ بلوچ ریپبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین رہے۔ انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے ڈبل ایم اے کیا۔ جن میں ماس کمیونیکشن اور پولیٹیکل سائنس کی ڈگری شامل ہیں۔ بلوچستان کے شورش زدہ حالات کی وجہ سے انہیں بلوچستان چھوڑنا پڑا۔ کافی عرصے تک انہوں نے دوبئی، قطر، مسقط، کویت اور بحرین میں روپوشی کی زندگی گزاری۔ 2016 کو وہ واپس بلوچستان آگئے۔ آج کل وہ تربت سول سوسائٹی کے کنوینرہیں۔ ان کا تعلق ضلع کیچ کے علاقے تجابان سے ہے۔ گلزار دوست کے اس پیدل مارچ کو عوام کی جانب سے کافی پذیرائی ملی۔
سی پیک روڑ پرومی کراس کے مقام پر حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے گلزار دوست سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انہیں حوصلہ دیتا ہے۔
پنجگور پہنچنے پر گلزار دوست کا استقبال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سوراب پہنچنے پر بھی ان کا پر تپاک استقبال کیا گیا اور انہیں پھولوں کے ہار پہنائے۔
اس موقع پر انسانی حقوق کے کارکن جبری گمشدگی کے شکار راشد حسین بلوچ کی والدہ اماں بذخاتون نے مارچ کا استقبال کیا۔ واضع رہے کہ 26 دسمبر 2018 میں راشد حسین اور ان کے کزن حفیظ زہری کو متحدہ عرب امارات میں گرفتار کیا گیا۔ بعد میں راشد حسین بلوچ اور حیفظ زہری پاکستانی حکام کے حوالے کردیا گیا۔ انہیں پاکستان لایا جاتا ہے۔
بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والے عبدالحفیظ زہری اور راشد حسین بلوچ گذشتہ کئی سالوں سے متحدہ عرب امارات میں اپنا کاروبار چلاکر گزر بسر کررہے تھے۔ بلوچستان میں حالات کی خرابی کے باعث وہ متحدہ عرب امارات منتقل ہوئے تھے۔ عبدالحفیظ زہری کے بھائی مجید زہری کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔ جن کی تشدد زدہ لاش 24 اکتوبر 2010 کو ملی تھی جبکہ عبدالحفیظ کے والد حاجی رمضان زہری جو خضدار کے ایک کاروباری شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے، ان کو 2 فروری 2012 کو بھرے بازار میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ اسی خاندان کے ایک اور فرد، عبدالحمید زہری کو کراچی کے علاقے گلستان جوہر سے لاپتہ کیا گیا۔
ان تینوں کی گرفتاری کے خلاف ان کے لواحقین نے عدالت سے رجوع کیا۔ احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ بلاآخر 3 فروری 2023 کو عدالتی حکم پر کراچی سینٹرل جیل سے عبدالحفیظ زہری کی رہائی ممکن ہوئی۔ تاہم عدالتی حکم پررہائی پانےوالےعبدالحفیظ زہری اور انکی فیملی کو طاقتورافراد کی جانب سے کراچی سینٹرل جیل کے باہر دوبارہ اغوا کی کوشش کی گئی، مزاحمت کرنے پر فیملی کی خواتین اور بچوں کو زد و کوب کیا گیا۔ اس کوشش کے دوران عبدالحفیظ بھی زخمی ہوگئے تھے۔ کافی شورشرابہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا ہجوم لگ جاتا ہے۔ جس پر اغوا کار انہیں چھوڑ کر واپس چلے جاتے ہیں۔ اور عبدالحفیظ زہری آزاد ہوجاتے ہیں۔
اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے عبدالحمید زہری کے اہل خانہ کی طویل جدوجہد سے 31 اکتوبر 2023 کو وہ بازیاب ہوجاتے ہیں۔ عبدالحمید زہری کی بازیابی میں ان کی اہلیہ فاطمہ بلوچ، بیٹی سعیدہ حمید، بیٹا ھمل بلوچ اور بیٹی ماہروز بلوچ کی اذیت ناک جدوجہد کا نتیجہ تھا، عبدالحمید زہری کے بچوں اور اہلیہ نے تین سال تک ان کی بازیابی کے لئے سڑکوں پر لاٹھیاں کھائیں، اذیتیں برداشت کیں۔
اسی فیملی کا آخری فرد، راشد حسین تاحال لاپتہ ہیں۔ ان کے اہلخانہ آج کل تختے اقتدار کے شہر اسلام آباد میں سراپا احتجاج ہیں۔ اسلام آباد پریس کلب کے باہر ان کا احتجاجی کیمپ جاری ہے۔ جبکہ انسانی حقوق کی رہنما ایمان مزاری ایڈوکیٹ نے راشد حسین سمیت دیگر بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے اسلام ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہوئی ہے۔ جس پر عدالتی حکم پر نگران وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کی عدالت میں پیشی ہوئی۔ عدالت نے حکم دیا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنایا جائے ورنہ نگران وزیراعظم، وزیرداخلہ کے خلاف ایف آئی درج کی جائیگی۔ عدالتی حکم پر نگران وزیرداخلہ سرفراز بگٹی، راشد حسین اور دیگر لاپتہ افراد کے اہلخانے سے اسلام آباد میں ملاقات کرتے ہیں۔ اس ملاقات میں سرفراز بگٹی لاپتہ افراد کے لواحقین کو کھانے کی دعوت دیتے ہیں۔ جس پر لواحقین نے دعوت کھانے سے صاف منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اسلام آباد میں سیر و تفریح کرنے نہیں آئے ہیں۔ انہیں ان کے پیارے چاہیئے وہ انہیں دے دیں وہ اپنے گھر بلوچستان واپس جائینگے۔
لواحقین نے راشد حسین بلوچ کی حوالگی پر متحدہ عرب امارات کے قومی دن کے موقع پر اسلام آباد میں ریلی نکالی اور احتجاج کیا گیا۔ اور راشد حسین بلوچ کی متحدہ عرب امارات کے حکام کی جانب سے پاکستان منتقل کرنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ مظاہرین نے راشد حسین کو عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ اگر ان پر کوئی بھی جرم مرتکب ہوا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ اور جرم ثابت کیا جائے۔
بلاآخرسول سوسائٹی تربت کے رہنما گلزار دوست کا تربت سے کوئٹہ تک پیدل مارچ تئیس روز بعد کوئٹہ پہنچ گیا۔ کوئٹہ پہنچنے پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی قیادت کی جانب سے ریلی کی شکل میں ان کا استقبال کیا گیا۔
تاہم گلزار دوست کا یہ لانگ مارچ حکومت کو ہضم نہ ہوسکا۔ کوئٹہ سے واپس تربت پہنچنے پر گلزار دوست کو 2007 میں توڑپھوڑ کے ایک پرانے مقدمہ میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ جس پر ان کے وکیل ضمانت کے لیے سیشن کورٹ رجوع کرتے ہیں۔ عدالتی حکم پر ان کی رہائی ہوجاتی ہے۔
سیاست اور جیل کا ایک گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ سیاسی ورکر قید و بند کے حوالے سے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار رہتا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ سرکار ہمیشہ جھوٹے مقدمات کو ایک ہتھیار کے طورپر استعمال کرتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔