وہ صبح کبھی تو آئے گی
تحریر: عزیز سنگھور
دی بلوچستان پوسٹ
عورت کی طاقت ایک حقیقت ہے جس قوم نے اس طاقت کو تسلیم کیا وہ آج دنیا کی عظیم قوم بن کر ابھری ہے۔ ان کی ریاستیں بھی دنیا کی طاقتور ترین ریاستوں میں شمار ہوتی ہیں۔ جن میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی سمیت دیگر یورپی ممالک شامل ہیں۔
جس بد بخت ریاست نے عورت کی طاقت کوماننے سے انکار کیا ہے وہ آج بدحالی اور معاشی چیلنجوں کا سامنا کررہے ہیں۔ جن میں پاکستان سرفہرست ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔
اسلام آباد سرکار اتنی کمزور ہوگئی ہے کہ ستر سالہ عورتوں اور اور ان کی بیٹیوں سے ڈرتی ہے۔ یہ کوئی تخریب کار نہیں تھیں۔ وہ انصاف مانگنے کے لئے اسلام آباد آئی تھیں۔
ڈنڈے برساکر سرکار نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ خود تخریب کاری میں ملوث ہیں۔ یہ تو ”چور کی داڑھی میں تنکا“ والی بات ہے۔ یعنی مجرم کا ضمیر ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے۔ ظاہری بات ہے آپ جرم کے مرتکب ہوئےہیں جو اتنے خوف میں مبتلا ہیں۔
اسلام آباد سرکار اتنی کمزور ہوگئی ہے کہ وہ ڈاکٹر ماہ رنگ ،سمی دین اورسیما بلوچ، لاپتہ راشد حسین کی بھتیجی ماہ زیب اور لاپتہ رمضان بلوچ کی بارہ سالہ بچی انیسہ بلوچ سے خوفزدہ ہوچکی ہے۔ یہ نہتی بلوچ عورتیں اور بچیاں ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں بندوق نہیں ہے۔ صرف اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے ہیں۔
بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے اسلام آباد پہنچنے والے لانگ مارچ کے شرکا نیشنل پریس کلب کے سامنے جانا چاہتے تھے۔ پریس کلب ریڈ زون سے کئی کلومیٹر دور واقع ہے۔ انہیں اتنا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ پریس کلب کے سامنے جاسکیں۔ پریس کلب صحافی برادری کی ملکیت ہے۔ وہ ایک پروفیشنل باڈی ہے۔ گورنمنٹ کی ملکیت نہیں۔ پریس کلبوں کے اپنے آئین و قوانین ہیں۔ جس کے مطابق پریس کلب مظلوم لوگوں کی آواز کا ایک پلیٹ فارم ہے۔ جہاں کوئی بھی متاثرہ فیملی آسکتی ہے۔ اپنی فریاد بیان کرسکتی ہے۔ شرکا کو پریس کلب تک رسائی نہ دے کر اسلام آباد پولیس خود جرم کی مرتکب ہوئی۔
لانگ مارچ کے شرکا کےمطالبات آئینی و قانونی ہیں۔ ان کے مطالبات میں لاپتہ افراد کی بازیابی، ماورائے عدالت کارروائیوں کے خاتمے اور زیرحراست بالاچ بلوچ کی ہلاکت پر جوڈیشل انکوائری جیسے نکات شامل ہیں۔
ماضی میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے نیشنل پریس کلب تو کجا انہوں نے ریڈ زون کا بھی گھیراؤ کیا۔ جہاں پارلیمنٹ سے لیکر سپریم کورٹ کی عمارت واقع ہے۔
بلوچ لاپتہ افراد کے لانگ مارچ کے شرکا کو بھی یہ حق حاصل ہے وہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج ریکارڈ کراسکتے ہیں۔ یہ ان کا آئینی و قانونی حق ہے۔ ریاست کی سپریم باڈی عوام ہے۔ اور تمام ادارے عوام کے گرد گھومتے ہیں۔ پارلیمنٹ بھی ان کی مینڈیٹ سے بنتی ہے۔ عدالتیں، انتظامیہ اور تمام فورسز عوام کے تنخواہ دار ادارے ہیں۔ یہ عوامی ٹیکس سے چلتے ہیں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے کیوں خوفزدہ ہو؟۔ وہ تو ایک نہتی لڑکی ہے۔ انہیں پدرانہ شفقت سے محروم کردیا گیاہے۔ ان کے والد عبدالغفار لانگو کی مسخ شدہ لاش ملی تھی۔ بعد میں ان کے بھائی کو لاپتہ کردیا گیا تھا۔
سمی دین بلوچ کے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ چودہ سال سے لاپتہ ہیں۔ اس بیٹی کو یہ تک معلوم نہیں ہے کہ ان کےوالد زندہ بھی ہیں یا قید میں دم توڑ چکے ہیں۔ اسی طرح سیما بلوچ کے بھائی شبیر بلوچ کئی سالوں سے لاپتہ ہیں۔ ماہ زیب بلوچ کے چچا راشدحسین کو دوبئی سے پاکستان منتقل کردیا گیا ہے۔ انہیں عدالتوں میں پیش نہیں کیا جارہا ہے۔
اسی طرح انیسہ بلوچ،لاپتہ محمد رمضان کی بیٹی، وہ اپنے والد کی جبری گمشدگی کے خلاف اسلام آباد پہنچ چکی ہے۔ تیرہ سال سے ان کے والد لاپتہ ہیں۔ 2014 میں انیسہ بلوچ کے بڑے بھائی علی حیدر نے کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک دیگر لاپتہ افراد کے ہمراہ پیدل مارچ کیا تھا۔ ابھی تک ان کے والد کی بازیابی نہیں ہوسکی ہے۔
ضلع کیچ کے علاقے زامران سے تعلق رکھنے والا وسیم سفر اپنی وہیل چیئر پر تربت سے اسلام آباد لانگ مارچ کا حصہ تھے۔ کیا سرکار وسیم سفر کی وہیل چیئر سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے۔ یہ وہیل چیئر ہے کوئی بم نہیں ۔ جو پھٹ جائے۔ اسی طرح سینکڑوں دیگر لانگ مارچ کے شرکا اپنی اپنی الگ الگ درد بھری کہانی رکھتے ہیں۔ یہ اسلام آباد کی سرکار ان کی ہولناک کہانی سے گھبرائی ہوئی ہے۔ کیونکہ ان کہانیوں کے پیچھے سرکار کا مکمل ہاتھ ہے۔
حکومتی پالیسوں کی وجہ سے آج بلوچستان میں حالات شورش زدہ ہیں۔ جو حکومتی پالیسی یعنی “مارو اور پھینکو” سے منسلک ہیں۔ ماورائے عدالت قتل عام کا سلسلہ جاری ہے۔ بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں اور ان کی ملنے والی مسخ شدہ لاشیں ہیں۔ ہر دوسرے گھر میں ایک لاپتہ سیاسی کارکن ملے گا اور ہر پانچویں گھر میں ایک مسخ شدہ لاش ملے گی۔ ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکن روپوش ہیں۔ ان کے وارنٹ گرفتاریاں جاری ہوچکے ہیں۔ اس وقت پورا بلوچستان اشتہاری قراردیا جاچکا ہے۔
بیس دسمبر بلوچ عوام کے لئے ایک المناک دن کے طورپر منایا جاتا ہے۔ اس دن دو بڑے دلخراش واقعات رونما ہوئے۔ 20 دسمبر 2020 کو بلوچ طلبا تنظیم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی لاش کینیڈا کے شہر ٹورنٹو سے برآمد ہوئی تھی ۔ اور دوسرا واقعہ 20 دسمبر 2023 کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کے شرکا پر اسلام آباد پولیس کی غنڈہ گردی تھی۔ جو بلوچ قوم تاریخ میں کبھی بھی نہیں بھولے گی۔ سب یاد رکھا جائیگا۔
کریمہ بلوچ کوئی معمولی لڑکی نہیں تھی۔ انہیں 2016 میں بی بی سی نے دنیا کی سو بااثر خواتین کی فہرست میں بھی شامل کیا تھا۔
شہید بانک کریمہ بلوچ نے بی ایس او کی چیئرپرسن شپ سنبھالی تو انہوں نے بلوچ طالبات کو سیاست کی طرف راغب کیا۔ اور وہ اس مقصد میں کامیاب بھی ہوئیں۔ آج بلوچ طلبہ سے بلوچ طالبات سیاسی طورپر زیادہ باشعور اور سرگرم ہیں۔ کریمہ بلوچ کی مزاحمتی سوچ سے سرکار خوفزدہ تھی۔ ان کے خلاف وارنٹ جاری کئے گئے۔ وہ کچھ سال کراچی اور کوئٹہ میں روپوش بھی رہیں۔ ان کے دیگر ساتھیوں کو لاپتہ کردیا گیا۔ کراچی میں ان سے میری بے شمار نشستیں ہوئیں۔ وہ ایک بہادر اور نڈر لڑکی تھی۔ وہ نظریاتی طورپر پختہ خیالات رکھنے والی اسٹوڈنٹس لیڈر تھی۔ بالآخر انہیں بلوچستان چھوڑنا پڑا۔ کینیڈا میں پناہ لی۔ جہاں ان کی شہادت ہوئی۔ اس شہادت نے بلوچ تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی جو آج ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، ڈاکٹر شلی بلوچ، سیما بلوچ اور دیگر ہزاروں بلوچ طالبات اور خواتین کی شکل میں جاری ہے۔ کریمہ کا یہ کارروان چلتا رہیگا۔ وہ صبح کبھی تو آئے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔