وفا کا سمندر شہید وطن فیض احمد بزدار عرف دلجان کون تھا؟ ۔ غم خوار شہزاد بلوچ

704

وفا کا سمندر شہید وطن فیض احمد بزدار عرف دلجان کون تھا؟ 

تحریر: غم خوار شہزاد بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ 

دلجان کا تعلق کوہ سلیمان ڈیرہ غازی خان کے ایک چھوٹے گاؤں برگ سے تھا۔1997میں استاد خیر محمد بزدار کے گھر میں پیدا ہوا ۔ جب سے فیض جان نے دنیا میں آنکھ کھولی تو فیض کا وطن ایک سام راج پنجابی کے قبضہ میں تھا اور ہوس سنھبالا تو پنجابی سام راج کے بارے میں سوچنا اور لکھنا شروع کردیا جب نواب اکبر بگٹی کو دوہزار چھ میں شہید کردیا تو اس کے بعد سنگت نے کہا اب پنجابی کا واحد حل جنگ ہے جنگ کے بغیر دوسرا راستہ نہیں بچا ہے سنگت نے شہید ڈاڈا کے اوپر کئی بلوچی غزل لکھے ۔

فیض جان نے ابتدائی تعلیم اپنے گاوں گورنمنٹ ھائی سکول برگ پشت میں پڑھا اور اعلی تعلیم کے لئے بلوچستان کے عظیم شہر اور بلوچ قوم کے مزاحمت ,سیاست کا مرکز شال کی طرف رخ کردیا اور شہیدوں کے سرزمین پلیں سریاب میں گورنمنٹ ڈگری کالج میں داخلہ لیا ۔فیض جان نے اپنے سیاسی زندگی کا سفر شہیدوں کا عظیم تنظیم بی ایس او آزاد سے شروع کیا اور شال میں بی ایس او آزاد کا ممبر ہوا ۔سنگت نے اپنے پڑھائی کے ساتھ ساتھ بی ایس او کے دیوان ,سیمینار اور پروگراموں میں شرکت کرتے تھے اور بلوچستان ,بلوچ تاریخ ,مختلف کالمز,بی ایس او کے نوشت ,بی ایس او کی تاریخ , بلوچ قوم اور زمین پر قبضہ گیر کے بارے میں پڑھنا اور لکھنا, دنیا میں مظلوم اور غلام قوموں کے بارے میں پڑھنا اور لکھنا , سام راجی نظام کے بارے میں پڑھنا , دوستوں کے ساتھ قبضہ گیر پر ڈیبیٹ کرنا , بابا وطن خیربخش مری کے زندگی پر عمل کرنا , میر نصیر خان نوری اور چاکر رند پر بحث کرنا , بی ایس او آزاد کے لیڈر شہید سنگت شنا بلوچ کا پیروکار بننا ,شہید صبا دشتیاری کی شاعری پڑھنا , شہید لمہ کریمہ کی باتوں پر غور کرنا, شہید غلام محمد کی سیاست پر سلام کرنا, زاہد و زاکر سے محبت , شہید بالاچ کی ہوشیاری اور خاموشی پر بحث کرنا , بلوچوں کا دوسرا پیغمبر ابرائیم استاد جنرل اسلم اور لمہ یاسمین کی بہادری کا قصہ کرنا , اکبر خان کی پیر سالی کی عمر میں پہاڑوں پر رخ کرنا , بابو نوروز کی بہاردی اور بابو کے سامنے اپنے اولاد کو پھانسی پر لٹکانا اور بابو کہتے ہیں کہ بیٹا تھمارا مونچھ کیوں نیچے ہیں? آپ تو قوم کے ہیرو ہو یہ قصہ کرنا ۔ہر وقت ہر موڑ میں کہتے تھے کہ میرا رہشون میرا مرشد انتہائی قابل قدر واجہ اللہ نزر بلوچ اور جنرل بشیر زیب ہیں سب سے زیادہ شہید دلجان زہری سے محبت کرنا ۔

جب سے فیض جان نے بی ایس او آزاد جوائن کیا أس کے بعد سنگت نے باقی دنیا کے تمام چیزوں کو پروپگنڈا سمجھا اور کہتے تھے کہ ہم لوگ مردہ لاش ہیں ہمارے قوم کے نوجوان اور کریم طبقہ کو دشمن چن چن کر لاپتہ کرکے مسخ شدہ لاشیں تحفہ کی شکل میں دے رہے ہیں ,ہمارے زمین پر غیروں کا قبضہ ہے ,لاکھوں کی تعداد میں بلوچ نودربر ,کماش, زالبول , مزدور , ڈاکٹر , پروفیسر , استاد شہید یا لاپتہ ہوچکے ہیں , ہمارے وسائل کو سام راج لوٹ کر پنجاب لے جارہے ہیں ۔بانک زرینہ مری 20 سال سے دشمن کے زندانوں میں قید ہے ۔ہمارے اسی سالا لوگوں کو دشمن اٹھاکر اپنے زندانوں میں تشدد کرکے مار دیتے ہیں ۔ہمارے زمین کے وسائل کو پنجابی لوٹ کر اور خود بلوچ دو وقت کے روٹی سے محروم ہیں ۔گیس سوئی میں ہوکر سوئی والے گیس سے محروم ہیں اور وہی گیس پنجاب کے کونے کونے میں ہے ۔دنیا کے اعلی بندرگاہ ہوکر بھی گوادر والے پینے کے پانی سے محروم ہیں ۔چاغی میں رکوڈک سیندگ ہوکر بھی وہاں کے مقامی اور ان کے بچے خوراک کی وجہ سے جسمانی مریض ہیں ۔ڈی جی خان کے علاقہ بغل چر میں دنیا کے مشہور یورننم نکل رہے ہیں لیکن وہاں کے مقامی یاکہ ڈی جی والے سال میں سینکڑوں کی تعداد میں کینسر جیسے موزی مرض سے مبتلا ہیں اور دشمن نے ڈی جی خان کو ایٹمی تجربہ گاہ بنایا ہوا ہے ۔

جب سے بلوچستان کے لوگوں کو غربت کے بارے میں پوچھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ خدا کی آزمائش ہے لیکن بختاور یہ نہیں سوچتے ہیں کہ یہ خدا کا آزمائش نہیں بلکہ سام راجی قبضہ گیریت کی وجہ سے ہورہے ہیں اور سام راج ہمارے وسائل کو لوٹ رہے ہیں ۔

کوہ سلیمان کے لوگ دنیا کے ہر سہولت سے محروم ہیں وادی برگ میں پانچ سو گھر ہوکر بھی ایک پرائمری سکول اور ڈسپنسری ہسپتال سے محروم ہیں صرف برگ نہیں بلکہ پورے کوہ سلیمان سمت بلوچستان میں دنیا کے ہر سہولت سے بلوچ محروم ہیں پھر بھی کم بخت بلوچ خوش ہیں ان کے زہین میں یہ نہیں آرھا ہے کہ ہمارے آنے والے نسل تباہ برباد ہورہے ہیں ان پڑ جہائل ہورہے ہیں۔ایک چپڑاسی سیٹ کے لئے نام نہاد پارلیمنٹ یاکہ نام نہاد ٹکری سردار, میر , دو ٹکے کے سرکاری آفیسراور ملک و معتر کے پیچھے بھاگے ہوئے ہیں۔

ہر کوئی اپنے آپ کو میر چاکر رند کا اولاد سمجھتے ہیں جب دو ٹکے کے ایف سی والے چوک چوروں پر روکتے ہیں اور ان لوگوں کو مرغا بناتےہیں تو یہ لوگ ایسے شریف بنتے ہیں جیسا کہ یہ لوگ سب جنت سے آئے ہوئے ہیں اور وہی بے ضمیر اپنے بلوچوں کے برابر اور ان کے مقابلہ میں ہٹلر ہیں ۔ہمارے مائیں اور بہنیں سام راج روڑوں پر زلیل کررہے ہیں اور شہید ھانی گل کی طرح دشمن لاپتہ کرکے پھر مسخ شدہ لاش پھینک دہتے ہیں اور جب بات آتی عورت کی تو کہتے ہیں بلوچ عورتوں کی عزت کرتے ہیں اور اپنے عورت کے لئے جان بھی قربان کردیتے ہیں ۔

فیض جان اکثر اپنے قریبی دوستوں کو کہتے تھے خدا نے مجھے بلوچستان کے لئے پیدا کیا اور میں انشااللہ مستقبل میں بلوچ قومی تحریک کے سپاہی ہوں ۔

اور بلوچی میں کہتے ۔

بلوچستان مئے مہرانی وتنء

بلوچستان مئے شہیدانی وتنء

بلوچستان مئے باندات اں

بلوچستان مئے بچار انت

بلوچستان مئے گلزمین ء سرمچارانی وتنء

مجھے یاد ہےایک دن دوستوں کے ساتھ پکنک منانے کے لئے بولان کا ارادہ ہوا تو میں نے گلزمین کے ہیرو کو فون کیا اور کہا کہ ہم لوگ کل بولان جائے گا اگر آپ کا ارادہ ہے تو ساتھ جاتے ہیں شہید فیض نے بولا ٹھیک ہے میں کل آو گا ہم لوگ صبح سویرے نو بجے درسگاہ شہید صبا دشتیاری بلوچستان یونیورسٹی سے ایک وین پر روانہ ہوا بہت سارے دوست تھے ایک طرف استاد امیر احمد کا گانا چل رہا تھا دوسری طرف دوستوں کی انجوائے منٹ فیض جان میرے ساتھ والے سیٹ پر بیھٹے ہوے تھے وہ بلکل خاموش تھا جب میں نے فیض کی آنکھوں کی طرف دیکھا تو آنکھوں میں آنسو آرہاتھا میں نے کہا خیر ہے کیا ہوا؟

فیض نے افف کر بولا ” سنگت ” یہ بولان ہے جہاں پر ہمارے بلوچی دفتر ہے اور مزید بولنا شروع کیا اور کہا دوست میرے لئے دعا کرنا اللہ پاک وہ دن لائے کہ میں اپنے حقیقی زندگی کا سفر کرو گا اور میں بولان میں بلوچی دفتر میں جاکر اپنے قومی فوج میں شامل ہوکر گلزمین کا حق ادا کرو اور شہید دلجان زہری کے بندوق میرے ہاتھ میں ہو اور میں دشمن سے دلجان کے خون کا بدلہ لو۔اس دوران فیض نے بولا کہ دشمن نے دلجان کو شہید کرکے یہ سوچا ہوگا کہ شاہد دلجان کے بندوق اٹھانے والا اور کوئی نہیں ہوگا یہ دشمن کی بھول ہے اب ہر گھر سے دلجان نکلے گا میں دلجان ہوں میں زہری ہوں میں بلوچ ہوں ۔۔

رات ہم لوگوں نے بولان میں گزارہ پھر صبح واپسی شال کی طرف ہوا دوسری رات ہم سب دوستوں نے میرے گھر میں گزارہ اور خوب بحث کیا ۔

ایک بار بحث مزہب پر ہوا تو شہید فیض نے مجھے غصے سے بولا اڑے لنڈ گھس اسلام تھمارے باپ کا ہے تم کب اسلام کا ٹھیکیدار ہوگئے؟ اور مزید بولا میرے لئے اسلام سمت دنیا کے سب مزہب قابل قدر ہیں لیکن بلوچوں کا ایک الگ مکہ جس کو لوگ کوہ مراد کے نام سے جانا جاتا ہے اور ایک الگ پیغمبر جس کو لوگ بابا مری کے نام سے جانا جاتا ہے اور ایک الگ ابرئیم ہے جس کو لوگ بابا استاد اسلم کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسلام میرے ماں کا مزہب ہے میں شاہد ان کو زیادہ ترجح دونگا ۔

درمیان میں روٹی کا بندوبست ہوا اور ایک وقفہ ہوا پھر شال کی سلیمانی چائے کے بعد دوبارہ بحث شروع ہوا اس دوران فیض نے بات کرنا شروع کردیا اور کہا دوستوں زندگی کا کوئی علم نہیں کہ کب دھوکہ دے گا میرا ایک مشورہ اور نصیحت ہے ۔

اور کہا کہ غلام کی کوئی زندگی نہیں ہے غلام کی کوئی خوشی نہیں ہے غلام جب تک غلام ہے وہ دربتر ہوگا برباد ہوگا ہم لوگ وہ قوم سے تعلق رکھتے ہیں کہ بدقسمتی سے ہم ایک بے نسل کے غلام ہیں حالاکہ وہ خود بھی امریکہ یا برطانیہ کا غلام ہیں ۔ اور آگے بات کرتے ہوئے فیض نے بولا کہ زندگی کو سمجھو اور ان پر عمل کرو بلوچ بنو اور بلوچی فرض پورا کرو جتنا بزدل ہوجاؤ گئے اتنا ہی فنا ہوجاؤ گئے مٹ جاؤ گئے ڈوب جاؤ گئے ۔مت ڈرو بے نسل پنجابی سے خداراہ اپنے قوم اور زمین کے لئے نکلو ۔موت سے مت ڈرو ویسے بھی ایک دن موت آئے گا کم از کم ایک ایسے موت کو گلے لگا دو تاریخ آپ کو یاد کریں گا ۔

اسی رات سنگت نے مزید بولا کہ یہ جنگ دشمن نے شروع کیا ہم لوگ تو اپنے وطن میں تھے دشمن نے قلات پر حملہ کرکے بلوچستان پر قبضہ کردیا اور اب جہاں پر روز آپریشن کررہے ہیں اب بلوچوں پر فرض ہے کہ دشمن کے خلاف نکلے اپنے قومی جنگ میں شامل ہوکر خوب لڑے اور دشمن کو خوب مارے تاکہ پنجابی کو پتا چلے گا کہ جہاں پر ایک زندہ قوم آباد ہیں ۔

تشدد کا بدلہ تشدد ہوگا پھول نہیں ۔

توپ کا بدلہ توپ ہوگا تحفہ نہیں ۔

غلامی کا بدلہ غلامی نہیں بلکہ آزادی ہوگا اور اب صرف آزادی کے لئے جدوجہد کرنا ہوگا دوسرا کوئی آپشن نہیں ۔۔

مزاحمت کے حوالے سے اکثر کہتے تھے کہ اگر مزہب کی بات کی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حدیث مبارک ہے کہ اپنے حق اور زمین کے لئے لڑو ,میشاق مدینہ میں جب یہود کے درمیان معاہدہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مظلوم کا ساتھ دینا اور ظالم کے خلاف جہاد کرنا ۔

آج کا اسلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں پنجابی یاکہ لوگ اپنے مفاد تک اسلام کو استعمال کررہے ہیں ۔

اگر بلوچ تاریخ کو دیکھا جائے تو بلوچوں نے ہر دور میں بیرونی قبضہ گیر کے خلاف مزاحمت کیا اور أسے بھاگنے پر مجبور کردیا ۔انگریز ہو یاکہ کوئی اور۔

مزاحمت سے ایک دن پنجابی مجبور ہوکر ہماری زمین کو نکل جائے گا ۔

پیارے دوست فیض جان میرے ساتھ ساتھ تمام دوستوں کے لئے بہت مخلص اور ایک سادہ انسان تھا وہ اپنے پانچ وقت کا نماز پڑتے تھے وہ کھبی غرور نہیں کرتے تھے ہر وقت محبت سے پیس آتےتھے وہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک نظریہ تھا ایک فکر تھا ایک ہیرو تھا ایک پیغمبر تھا ایک وفا تھا ایک محبت تھا ۔

کافی وقت بعد پتا چلا کہ سنگت کا سرکاری جاب ہوا بلوچستان ہاؤس اسلام آباد میں ایک دن میں نے فون کیااور کہا دوست آپ کو مبارک ہو؟ تو فیض نے میرا جواب دے کر بولا نہیں اڑے میرا دل نہیں کرتا ہے کہ میں یزید کی شہر میں ہوکر سام راج کی غلامی کرو لیکن کچھ مجبوری ہے والد کی طرف سے اور میں والد صاحب کو ناراض نہیں کرنا چاہتا ہوں اب میں مزید اس غلامی میں نہیں ہونا چاہتا ہوں ۔

فون پر بولا کہ دوست میں عید الفطر میں گھر جاؤ گا اور شال کے آنے کا بھی ارادہ ہے آپ شال میں ہو ؟

میں نے کہا جی اور مزید بولا اب صرف میرا ایک خواہش ہے کہ ایک دن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ڈاکٹر صبیحہ بلوچ سے ملو لیکن افسوس وہ خواہش بھی میرے دوست کا پورا نہیں ہوسکا ۔

شہید وتن نے مجھے عید کے تیسرے دن بولا کہ میں راستہ میں ہوں اور رات ہم لوگ اپنے چاچا کے گھر زوب میں گزارہگئے اور اگلی صبح میں انشااللہ شال پہنچ جاؤ گا اور میرے ساتھ میرے ماموں ہیں ۔درمیان میں کچھ دن گزر گئے ایک دن میں نے سنگت کو وئس ایپ کیا اور بولا کہ کہاں ہو ؟

تو فیض نے کہا میں ماموں کے گھر میں ہوں۔ میں نے کہا کہ کل فلاح جگہ میں ایک سیمینار ہے شاہد ڈاکٹر ماہ رنگ اور ڈاکٹر صبیحہ بھی آئے گا اگر ملنا ہے تو کل چلتے ہیں سنگت نے بولا میں کل آؤ گا صبح دو بجے کا وقت مقرر تھا فیض اپنے ماموں کے گھر سے روانہ ہوا اور میں اپنے گھر سے راستہ میں ہم لوگ ایک ساتھ سیمینار چلے گئے وہاں پر بانک ماہ رنگ سمت کئی لوگ سیمینار میں شریک تھے سیمینار کا آغاز گلزمین بلوچستان کے شہیدا سے ہوا کافی لوگوں نے خطاب کیا آخر میں قابل قدر ڈاکٹر ماہ رنگ نے اپنا خطاب شروع کیا اور کہا سام راج کی فیصد بلوچ قوم کو نہیں بلکہ بلوچ قوم کو خیر بخش کی نظریہ کو آگے منزل تک لے جانا ہے

جب سیمینار ختم ہوا تو کافی رش کی وجہ ڈاکٹر ماہ رنگ سے نہ مل سکا آخری وقت منان چوک میں فیض نے مجھے گلے لگا کر بولا شاہد آج کے بعد ہم لوگ نہیں ملے گئے

“”رخصت اف آواروں سنگت””

میں نے کہا خیر ہے کیا کہا رہا ہو؟ تو سنگت نے ہنس کر بولا میں مزاق کررہا ہوں

“””افف مجھےکیا پتا تھا کہ یہ میری زندگی کا آخری ملاقات ہوگا “””

رات کے وقت سنگت کا ایک وئس ایپ آیا بلوچی میں بولا : اڑے شہزاد منی زندگی اں ھچ سما نہ انت کہ چھ بی تو کوشش بکن انت باندا منا ڈاکٹرء ملاقات بی ۔من گوش اں اللہ جوا کھت بل ہما جواء دا مرچی نہ بیتااں او فیض جان وتی منزل سر بیساں مرچی وتی گلزمین اں فرض پورا کتا انت ۔

پھر أس کے بعد سنگت سے میرا رابط نہیں ہوا کافی وقت بعد فیض کے علاقے والے مجھے ملا اور میں نے فیض کی خیریت کے بارے میں پوچھا تو أس نے کہا کہ فیض مئی دوہزار بائیس میں گم ہے کسی کو پتا نہیں کہ وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے

۔یہ وہ وقت تھا جب علاقہ میں نام نہاد بلدیاتی الیکشن ہورہے تھے اور وہاں پر نام نہاد بے ضمیر ملک, وڈیرہ الیکشن میں مقابلہ پر تھا لوگوں کی توجہ زیادہ تر بے بنیاد سیاست پر تھا کافی دن بعد پتا چلا کہ فیض کا نمبر بند ہے ۔والدین اور دوستوں نے تلاس کرنا شروع کردیا اس دوران والدین نے ہر کسی کے دروازہ پر دستک دیا ۔کھبی نام نہاد ملا و پیر تو کھبی نام نہاد سرکاری دو ٹکہ کے بے ضمیر آفیسر یا کھبی نام نہاد وڈیرہ و ملک کھبی پارلیمنٹ کے دلار یا کھبی سام راج کے فوجی کینٹ لیکن کوئی پتا نہیں چلا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے ؟

13 نومبر 1839 میں انگریز سام راج کے خلاف خان آف قلات شہید محراب خان بلوچ نے تین سو ساتھوں سمت مزاحمت کرکے جام شہادت نوش کیا انگریز سام راج کے خلاف بلوچوں کی مزاحمت جاری ہوا بل آخر انگریز نے گیارہ اگست 1947 کو بلوچستان ایک آزاد ریاست تسلیم کیا تقریبا نو ماہ تک بلوچستان دنیا میں ایک آزاد ریاست قائم ہوا ۔27مارچ 1948 میں پنجابی فوج نے قلات پر فوج کشی کرکے بلوچستان پر جبرن قبضہ کردیا اس قبضہ کے خلاف بلوچوں نے لاکھوں کی تعداد میں جام شہادت نوش کیا اور ہزاروں کی تعداد میں سام راج کے زندانوں میں قید ہیں 13 نومبر کے دن دوہزار دس میں بی ایس او آزاد نے شہدائے بلوچستان کے نام سے مقرر کردیا اور آج تک ہر سال شہدائے بلوچستان کے نام سے منایا جاتا ہے ۔۔

13 نومبر 2023 کا دن تھا تقریبا صبح دس بجے کا وقت تھا جب میں نے موبائل پر بلوچستان پوسٹ ہر نظر ڈالا تو دیکھا کہ بلوچ قومی تحریک کے قومی اور بلوچ قوم کے محافظ فوج بلوچ لبریشن آرمی کا بیان جاری ہوا !

ولی تنگی حملے میں شہید ساتھیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔بی ایل اے ۔

کوئٹہ کے نواحی علاقے ولی تنگی میں بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے 14 سمبر 2023 کو قابض پاکستانی فوج کے ایک کمپ پر حملہ کرکے مکمل قبضہ جمانے کے بعد گیارہ اہلکاروں کو ہلاک کردیا اور دشمن کا فوجی سازو سامان اپنے قبضہ میں لے لیا تھا ۔

اس کاروائی کو سرانجام دیتے ہوئے بلوچ لبریشن آرمی کے فتح سکواڈ کے تین جانباز ساتھی میران عرف گرو, شاہد عرف درا اور فیض احمد بزدار عرف دلجان شہادت کے عظیم مرتبت پر فائز ہوگئے ۔

ترجمان : جینئد بلوچ

بلوچ لبریشن آرمی

مورخہ : 13 نومبر 2023

فیض جان واقعی تم نے اپنا وعدہ پورا کیا ۔

فیض جان واقعی تم گلزمین کے ہیرو ہو۔

فیض جان تم واقعی بلوچستان کے عاشق ہو ۔

فیض جان تم واقعی دلجان ہو۔

فیض جان تم واقعی بلوچستان کے سپاہی ہو ۔

فیض جان تم نے واقعی گل زمین کا حق ادا کیا ۔

فیض جان تم نے واقعی بولان کے بلوچی دفتر کو سمجھا اور ان پر عمل کیا ۔

فیض جان تم نے واقعی دشمن سے دلجان زہری کے خون کا بدلہ لیا۔

فیض جان تم نے واقعی بی ایس او کو سمجھا اور عمل کیا ۔

نوٹ: کھبی وہ دن بھی آئے گا جب آزاد ہم ہونگے

یہ اپنی زمین ہوگئ یہ اپنا آسمان ہوگا

شہیدوں کے مزاروں پر لگے گئے ہر برس میلے ,

وطن کے جانشاروں کا یئی نام و نشان ہوگا ۔

نوٹ :

ماتی منی ساہ بدل پنتے چہ آزماتاں یہ زور

لجانی دیمپان اش کت انت بچ تنگوائیں شیرو مزار

سلام گلزمینء شہیداں سلام

سلام جہداں آجوئی شہیداں سلام

میں شہید فیض جان سمت تمام بلوچ شہیدوں کے خاندان کو یہ کہتا ہوں کہ آپ کے بیٹے گلزمین کے ہیرو ہیں تم لوگ خوش قسمت ہو تھمارے گھر میں اللہ پاک نے “علی,حسین ” پیدا کیا ۔

اور آپ کے بیٹے تاریخ میں ایک سنہری حروف میں لکھا جائے گا شہید کھبی نہیں مرتے وہ ہر دور میں زندہ ہیں شہید حیات ہیں قوم کے ہیرو زندہ اور زندہ رہے گا ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔