نیدرلینڈز ایمسٹرڈیم میں بلوچ نیشنل موومنٹ نے انسانی حقوق کے عالمی دن پر بلوچستان میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پر سیمینار کا انعقاد کیا، سیمینار میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے اراکین، بلوچ کمیونٹی اور انسانی حقوق کے دیگر کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
سیمنار میں شہدائے بلوچستان کے لیے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئ، بعد میں پاکستانی فورسز کی جانب سے بلوچستان میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پہ ڈاکومنٹری چلائی گئی۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پہ اقوام متحدہ کی خاموشی مجرمانہ ہے۔ انہوں نے کہا دنیا فلسطین میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پہ آواز بلند کرتا لیکن بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی جانب سے بلوچستان میں بلوچ نسل کشی پہ منہ پھیر لیتا ہے پاکستانی سیکورٹی فورسز کی وجہ سے بلوچستان کی انسانی حقوق مخدوش صورتحال پہ ہیں، ہزاروں لوگ جبری لاپتہ، فیک انکاؤنٹر ، تشدد، لوگوں کو گھروں سے جبری بے دخل شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ تربت سے تعلق رکھنے والے بالاچ بلوچ کے قتل اور اہل خانہ کا انصاف کا مطالبہ تربت سے کوئٹہ تک ایک طویل احتجاج اور لانگ مارچ میں بدل گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان پر قبضہ، بلوچ نسل کشی اور پاکستانی فورسز کے جانب سے بلوچستان میں دیگر انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پہ عوام کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔
انہوں بیرون ممالک میں مقیم بلوچوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے عوام کے دکھ درد کو سمجھیں، بلوچستان میں پاکستانی سیکورٹی فورسز ہاتھوں بلوچ نسل کشی پہ اپنے آواز کو دنیا میں مؤثر انداز میں بلند کرے اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پہ دنیا کو آگاہ کرے۔
انہوں نے آخر میں کہا دنیا کو بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے حوالے سے فوری توجہ اور کارروائی کی اشد ضرورت پر زور دیا۔
سیمینار میں شریک ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں انسانی حقوق کی جاری خلاف ورزیوں پر کہا کہ آج ایک پاکستانی ہونے کے ناطے میں اس ہال میرا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ انہوں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی جانب سے بلوچستان میں بلوچ نسل کشی نہیں ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا بلوچستان یا بلوچ نسل کشی پہ کوئی بات کرے تو پاکستانی فورسز کی جانب سے یا انہیں جبری لاپتہ کیا جاتا یا سبین محمود کی طرح قتل کیا جاتا، انہوں نے کہا پاکستانی فوج نے بلوچستان کو نوگو ایرہ بنایا ہے، میڈیا بلیک آؤٹ ہے، ہزاروں لوگ لاپتہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا پاکستانی فوج جو ظلم بربریت بنگلادیش میں کیا تھا آج وہی بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں واپس دہرا رہا ہے۔ انہوں نے کہا دنیا کو بلوچستان میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پہ نوٹس لینی چاہیے کہ اس سے پہلے دیر ہوجائے۔
اٹلی کے معروف صحافی اور مصنفہ فرانسسکا مارینو نے زور دے کر کہا کہ بلوچستان میں نسل کشی کی سنگین صورتحال سامنے آ رہی ہے، دنیا اور امریکہ کو بلوچستان میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پہ کھل کے بات کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا ظلم کئی پہ بھی ہو اس کی مذمت کرنی چاہیے فلسطین میں یا بلوچستان۔
سیمنار سے انسانی حقوق کی وکیل ایمان حاضر مزاری اور سینئر سیاستدان افراسیاب خٹک نے بلوچ لاپتہ افراد کے معاملے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا بلوچستان میں انسانی حقوق کے خلاف ورزی اور لوگوں کے جبری گمشدگیوں میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے، پہلے لوگوں کو جبری گمشدگیوں کا شکار بنایا جاتا ہے پھر ان کو جھوٹے مقدمات یا فیک انکاؤنٹر میں مارا جاتا ہیں۔
انہوں نے کہا پاکستان کے صرف دارالحکومت اسلام آباد سے سینکڑوں بلوچ طالب علم لاپتہ ہیں آپ اندازہ کرے بلوچستان میں اس وقت کتنے لوگ لاپتہ یا ان کے مسخ شدہ لاشیں ملیں ہونگے۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف پاکستانی سیکورٹی فورسز کے جانب سے آپریشنوں کے نام پہ بلوچستان میں ظلم او بربریت اور دوسری جانب سرکاری ڈیتھ اسکواڈ نے لوگوں کی زندگی بد سے بدتر بنائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا شیفق مینگل جیسے لوگوں کو بلوچستان میں قتل غارت کو باقاعدہ لائسنس جاری کیا گیا۔
بی این ایم جرمنی چیپٹر کے نائب صدر سمول بلوچ نے کہا بلوچستان میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پہ ہمیں منظم اور موثر انداز آواز بلند کرنا ہے۔
انہوں نے کہا اقوام متحدہ کو بلوچستان میں بلوچ نسل کشی اور انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پہ نوٹس لینا چاہیے۔
سیمینار میں اسٹیج سیکرٹری کے فرائض حکیم واڈیلہ بلوچ نے سر انجام دیئے۔