امریکی محکمہ خارجہ نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ مغربی کنارے میں انتہاپسند یہودی آبادکاروں کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں کرنے والوں پر ویزا کی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
امریکی سیکریٹری خارجہ انٹنی بلنکن نے اس اقدام کا اعلان ایسے موقعے پر کیا ہے جب گزشتہ ہفتے اس سلسلے میں بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو انتباہ کیا تھا کہ امریکہ ان حملوں کے خلاف اقدامات کرے گا۔
امریکی سیکریٹری خارجہ نے اپنے اعلان میں انفرادی طور پر ویزا پابندیوں کی تفصیلات نہیں دیں۔ لیکن محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے صحافیوں کو بتایا کہ منگل کے روز سے درجنوں یہودی آبادکاروں اور ان کے خاندانوں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر یہودی آبادکاروں کی جانب سے مغربی کنارے میں پرتشدد کارروائیاں جاری رہیں تو مزید پابندیاں بھی عائد کی جا سکتی ہیں۔ تاہم انہوں نے اس سلسلے میں ان افراد کی تعداد بتانے اور ان کے نام بتانے سے انکار کیا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق یہ فیصلہ امریکہ۔ اسرائیل تعلقات کے اہم موڑ پر سامنے آیا ہے جب 7 اکتوبر سے اسرائیل۔ حماس تنازعے کی شروعات سے امریکہ نے اسرائیل کی مسلسل حمایت جاری رکھی ہے، جب کہ دنیا بھر میں اسرائیل پر تنقید میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
اے پی کے مطابق اس خبر پر امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم اسرائیلی سفارت خانے نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
حالیہ ہفتوں میں واشنگٹن کی جانب سے اسرائیل پر غزہ میں جاری حملوں میں شہری ہلاکتیں محدود کرنے پر دباؤ ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے۔
اگرچہ امریکہ نے اس اسرائیلی کاروائی پر کھل کر تنقید نہیں کی، لیکن مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے بڑھتی پرتشدد کارروائیوں اور امریکہ کے ان کارروائیوں کی روک تھام کے اسرائیل سے مطالبے پر، اسرائیل کی جانب سے اقدامات کرنے میں ناکامی کے خلاف امریکہ مسلسل آواز اٹھاتا آ رہا ہے۔
بلنکن نے ایک بیان میں کہا، ’’ہم نے اسرائیلی حکومت پر مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں کرنے والے انتہاپسند آبادکاروں کے خلاف مزید اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، جیسا کہ صدر بائیڈن نےبار بارکہا ہے کہ یہ حملے ناقابل قبول ہیں۔‘‘
پیر کے روز اقوام متحدہ کے انسانی امور کے رابطے کےدفترنے ایک بیان میں کہا کہ سات اکتوبر کے حملوں کے بعد سے مغربی کنارے میں اب تک کم از کم آٹھ فلسطینی ، یہودی آبادکاروں کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی کا کہنا ہے کہ اب تک اس نے ایسے 314 حملے ریکارڈ کیے ہیں جن میں آبادکاروں کے ہاتھوں فلسطینیوں کو جانی اور مالی نقصان پہنچایا گیا۔
ان میں سے ایک تہائی حملوں میں ہتھیاروں یا فائرنگ کا استعمال کیا گیا، جب کہ نصف حملوں میں ان یہودی آبادکاروں کو اسرائیلی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حمایت حاصل تھی۔
بلنکن نے اپنے بیان میں لکھا، ’’آج محکمہ خارجہ ویزا پابندیوں کی ایک نئی پالیسی جاری کر رہا ہے جس میں ان افراد کو نشانہ بنایا جائے گا، جن کے بارے میں یہ یقین کیا جاتا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں امن، سیکیورٹی اور استحکام کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے، جن میں پرتشدد کارروائیاں اور ایسے اقدامات بھی شامل ہیں، جن کے ذریعے شہریوں کی ضروریات زندگی اور سہولتوں تک رسائی روکنے کے لیے، ان پر بے جا پابندیاں عائد کی گئیں۔‘‘
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف یہودی آبادکاروں کی پرتشدد کارروائیوں اور فلسطینیوں کے اسرائیلی شہریوں پر حملوں کی جوابدہی کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔
غزہ میں جاری تنازعے کے سبب مغربی کنارےمیں فریقین میں کشمکش کافی بڑھ چکی ہے۔
بلنکن نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی، دونوں پر مغربی کنارے میں استحکام قائم رکھنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی کنارے میں عدم استحکام اسرائیلی اور فلسطینی عوام کو خطرے میں ڈال سکتا ہے اور یہ اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے بھی خطرناک ہے۔
منگل کے روز یہ تازہ اقدام ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب محض ایک مہینہ قبل اسرائیل کو امریکہ کے ’’ویزا ویور‘‘ پروگرام کا حصہ بنایا گیا تھا۔
اس پروگرام کے تحت اسرائیلی شہری امریکہ میں بنا کسی ویزا کے داخل ہو سکتے ہیں۔ اے پی کے مطابق جن افراد کو اس پالیسی کے تحت نشانہ بنایا جائے گا وہ اس پروگرام کا حصہ نہیں ہوں گے، جب کہ جن لوگوں کو پہلے سے ویزا دیا جا چکا ہے، ان کا ویزا بھی منسوخ کر دیا جائے گا۔