بلوچ وائس فار جسٹس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تربت سے کوئٹہ تا اسلام آباد لانگ مارچ کے منتظمیں شرکاء، سیاسی کارکنوں اور پر خواتین ایکٹوسٹوں خصوصاً جبری لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی لاپتہ افراد کی توانا آواز سمی دین بلوچ، جبری لاپتہ آصف کی ہمشیرہ سائرہ بلوچ اس کے بہن اور کزنوں اور بساک کے سابق چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ سمیت دیگر کے خلاف خضدار اور نال سمیت دیگر علاقوں میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کرنا تشویشناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست اور ریاستی ادارے پرامن لانگ مارچ سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں کیونکہ لوگوں نے تربت سے لیکر کوئٹہ اب کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کو پزیرائی بخش رہے ہیں اور بڑی تعداد میں شرکت کررہے ہیں، موجودہ عوامی ابھار نے ریاست کی قائم خوف کو ختم کر کی ہے اور بلوچ قوم بلوچ نسل کشی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف گھروں سے نکل چکے ہیں اور عوامی سیاسی مزاحمت کا حصہ بن چکے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ خوف و ہراس قائم کرنے کے لئے بے بنیاد ایف آئی آر درج کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سائرہ بلوچ سمیت بہت سے ایسے ایکٹوسٹوں کے نام بھی ان ایف آئی آرز میں شامل کئے گئے ہیں جو لانگ مارچ اور مظاہروں میں شامل نہیں رہے ہیں، سائرہ بلوچ پچھلے 19 دنوں سے نیشنل پریس کلب کے باہر دیگر جبری لاپتہ افراد کے خاندانوں کے ہمراہ علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ میں شریک ہے اور اس دوران انہوں وہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوچکی ہے اور وفاقی وزیر داخلہ سے ملاقات کی اور اب بھی اسلام آباد میں موجود ہے ان کا نام شامل کرنے سے اِن ایف آئی آرز کی اصل حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچ وائس فار جسٹس وکلاء سے صلاح مشورہ کرکے ان ایف آئی آرز کے خلاف بلوچستان ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کرے گی اس کے علاؤہ ہر فورم پر بلوچ ایکٹوسٹوں اور لاپتہ افراد کے لواحقین کو مکمل معاونت فراہم کرے گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت کسی بھی ایکٹوسٹ کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو بلوچ قوم شدید ردعمل کا اظہار کرے گی اب خاموشی کے بجائے بلوچ قوم سیاسی مزاحمت کو ترجیح دیں گے۔