قبریں اُپّار ۔ زمین زھگ

184

قبریں اُپّار 

تحریر: زمین زھگ 

دی بلوچستان پوسٹ

وہ کافی دیر تک قبر کے سرہانے پر خاموشی سے بیٹھ کر غور سے قبر پر لگے تختی کو دیکھتا تو بھیانک سی خاموشی چھا جاتی اور اسی خاموشی کو اپنے مسکراہٹ سے توڑ کر قبر کو گلے لگاتا ہے اور صرف اتنا کہتا ہے کہ میں تمہیں نہیں بتا سکتا – کاش میں بتا پاتا،  کاش میرے پاس الفاظ ہوتے،  وہ جملے ہوتے –  ایک آہ کے ساتھ صرف اتنا کہہ سکتا ہر ایک ایک چیز بیان نہیں ہوپاتا ہر چیز ہمارے بس میں نہیں – کاش ہمارے بس میں ہوتا ! لیکن یہ جو میں بیان کرنے سے قاصر ہوں یا یہی احساس اس محبت کو اتنا سنہرا اور خوبصورت بنا دیتا ہے –

کچھ دوست کچھ رشتے اور چند یادیں ایسے ہوتے ہیں جسے انسان چاہ کر بھی بیان نہیں کرپاتا اور یہ نا بیان ہونے والے جو رشتے ہیں وہ انسان کو سب سے زیادہ عزیز ہیں اور اسکے سب سے قریبی ہوتے ہیں اور ہر ایک انسان کی خواہش ، غم، اظہار خیال کرنے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ کچھ چاہ کر بھی نہیں دکھاتے کچھ ناچاہ کر بھی سب کچھ دکھا دیتے ہیں –

اُس بوڑھے شخص کو تین سال ہونے کو ہیں جب سب لوگ سوجاتے ہیں تو وہ اپنا چادر لپیٹ کر ایک چراغ اور اپنا ڈنڈا ہاتھوں میں لئے مسجد کے قریب واقع قبرستان میں اپنے خوبصورت نوجوان بیٹے کے قبر پر صرف یہ کہنے کے لئے آتا ہے کہ میں تم سے بہت پیار کرتا تھا لیکن کھبی دکھا نہیں پاتا – میں جب بھی تمہیں ڈھانٹ تھا یا تم پر غصہ کرتا یا انجانے میں لپنگا ناجانے کیا کیا کہتا – یا کبھی تم کو ان سے بدتر کہتا جو آج وہ تمہارے پاؤں کے خاک کے برابر نہیں – آج مجھے تم پر فخر ہے لیکن یہ شخواہ،  یہ باتیں نہیں بتا پاتا –

اس قبرستان میں صرف ایک ہی وہی قبر ہے جس کی  تختی پر نام کے سامنے شہید لکھا ہے اور  اسکے سرہانے پر تین رنگا بیرک جو نہ جانے کس نے کب کتنے عرصہ پہلے لگایا تھا جسکی رنگ بھی بدل گئی ہے – وہ بوڑھا شخص قبر کو گلے لگاکر صرف خاموشی میں اس سے بات کرتا ہے،  کھبی شکوہ کرتا ہے اور کھبی اپنے بے وسی کا اظہار کرتا ہے،  کبھی اسکے بچپن کے قصے اور کھبی اسکے ماں کے جو کبھی اسنے دیکھی بھی نہیں تھی اسکے قصے کرتا ہے – وہ اپنے خاموشی دل ہی دل میں اپنے بیٹے سے بات کرتا ہے – جسے اپنے بڈھاپے کا سہارا سمجھتا تھا اور نجانے کتنے زمینیں بیجھ کر اپنے نوجوان بیٹے کو اس جنگ زدہ اپنے آبائی علاقے سے دور اس بن ماں کے بیٹے کو شہر میں دوسرے بچوں کی طرح تعلیم دینے کے لئے روانہ کیا تھا لیکن وہ بوڑھا شخص لاعلم تھا جب ساری سماج،  آپکی زمین ایک زیست اور پناہ کی جنگ میں دوچار ہیں آپ اس جنگ کے بلواسطہ یا بلاواسطہ حصہ ہیں ـ آپ اس جنگ کو کبھی بھی ڈھال یا اسے روپوش نہیں ہوسکتے ـ پھر شھر سے اسکے بیٹے کی بس لاش آئی اور اس لاش پر صرف انگنت زخم،  نکلے ہوئے ناخن، گولیوں سے چھلنی سینہ اور بڑی داڈھیاں وہ اپنے دل ہی دل میں کہتا ہے کہ مجھے فخر ہے اسلئے نہیں کہ میں تمہارا باپ تھا  بلکہ اسلئے کہ تم میرے بیٹے تھے اور جانتے ہو لوگوں کی اولادوں کی پہچان اپنے والد کے نام سے ہوتا ہے اور پھر وہ یہ سوچ کر مسکرا دیتا ہے کہ ہم مُردوں کے شکل میں زندہ لوگوں کو سب اسی قبر کی بدولت جانتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔