عالمی ادارہ صحت کا ایگزیکٹو بورڈ 10 دسمبر کو غزہ اور مغربی کنارے میں صحت کے بحران پر بات کرنے کے لیے ایک ایسے وقت میں ایک غیر معمولی ہنگامی اجلاس کا انعقاد کرے گا جب فلسطینی ایلچی مزید طبی امداد اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے غیر ملکی کارکنوں تک رسائی کے خواہاں ہیں۔
ڈبلیو ایچ او نے پیر کو تصدیق کی کہ اسے سیشن کے انعقاد کے لیے 15 ملکوں کی جانب سے درخواست موصول ہوئی ہے، جسے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس گیبریئس، قطری چیئرمین کی مشاورت سے بلائیں گے۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کے لیےفلسطینی سفیر ابراہیم خریشی نے کہا کہ اس اجلاس میں زیادہ تر توجہ غزہ پر مرکوز کی جائے گی، جو وہاں کے حماس کے حکمرانوں اور اسرائیل کے درمیان جنگ میں گھرا ہوا ہے، تاہم اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں صحت کے شعبے پر ہونے والے حملوں پر بھی اجلاس میں بات ہوگی۔
انہوں نے رائٹرز کو بتایا، “ہم ڈبلیو ایچ او کو بااختیار بنانا چاہتے ہیں اور اسرائیل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ طبی شعبے کو نشانہ نہ بنائے۔ ہم تازہ طبی سامان کی ترسیل کی اجازت چاہتے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ان کا سفارتی مشن بورڈ کے ذریعہ نظرثانی کے لیے ایک تحریک کا مسودہ تیار کر رہا ہے۔ “ایک خیال یہ ہے کہ دنیا بھر سے مزید ڈاکٹر بھیجے جائیں،” انہوں نے کہا،” بہت سے ممالک نے پیشکش کی ہے۔ “
مقبوضہ فلسطینی علاقہ” رکن ریاست کے بجائے ڈبلیو ایچ او میں مبصر کا اسٹیٹس رکھتا ہے لیکن اپنے حامیوں کی وجہ سے تنظیم میں اس کا اثر و رسوخ ہے۔
اسرائیل نے کہا کہ یہ اجلاس اسرائیل کی جانب دوہرے معیار اور غیر متناسب توجہ کی ایک مثال ہے۔
اسرائیلی بمباری اور ایندھن کی کمی کی وجہ سے غزہ کے ہسپتالوں کا صرف ایک حصہ کام کے قابل ہے، تاہم جو اسپتال اب بھی کام کر رہے ہیں وہ زخمیوں کی ایک نئی لہر سے تیزی سے بھرتے جارہے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈیٹا بیس سے پتہ چلتا ہے کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر سرحد پار سے حماس کے حملے اور غزہ پر جوابی فضائی حملے اور حملے کے بعد سے فلسطینی علاقوں میں صحت کی دیکھ بھال کی تنصیبات پر 427 حملے ہو چکے ہیں۔ ڈیٹا بیس میں یہ چیز شامل نہیں ہے کہ حملوں کے ذمہ دار کون ہے۔
اسرائیل نے حماس پر الزام لگایا ہے کہ اس کے اسپتالوں اور دیگر شہری عمارتوں کے اندر کمانڈ سینٹر اور ہتھیار رکھتا ہے اور وہ غزہ کے عام شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔