شہید عبدالرزاق کا لہو اور نظریاتی سوداگر
تحریر: زویا بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یہ تحریر کافی عرصہ پہلے لکھنے کی ضرورت تھی لیکن بار بار یہی سوچ کر انگلیوں کی جنبش کو روک لیتے تھے کہ شاید سب کچھ درست سمت میں چلنا شروع ہوجائے لیکن آج دل خون کے آنسو رورہا، الفاظ ساتھ نہیں دے رہے، جزبات بے قابو ہورہے ہیں، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر ایسی کونسی آفت ٹوٹ پڑی جو اتنی لمبی تمہید باندھنی پڑ رہی ہے۔
ہوا یوں کہ آج سوشل میڈیا پر اسکرولنگ کرتے ہوئے ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں لکھا تھا کہ شہید پروفیسر عبدالرزاق کے نام سے چلائے جانے والے نجی تعلیمی ادارے میں بیوروکریسی کی تیاری کے لئے باقاعدہ کلاسز کا آغاز کیا جارہا ہے، جی ہاں وہی شہید پروفیسر عبدالرزاق جس نے سیاسی تربیت کے لئے اس ادارے کی بنیاد رکھی تھی، جس نے نظریہ، فکر، سوچ اور عمل پر کمپرومائز کرنے کی بچائے جان کی قربانی دینے کو ترجیح دی اسی کے نظرئیے پر دکانداری کرنے والے پہلے طلبہ کو میڈیکل، انجینئرنگ کے ٹرینڈ میں مبتلا کرکے محض غیر سیاسی کرنے کا کردار ادا کر رہے تھے مگر آج براہ راست انکو ریاستی مشینری اور سافٹ پاور کا حصہ بنانے میں مصروف عمل ہیں۔
جہاں ایک طرف پروفیسر کی شہادت کے بعد خضدار کا سیاسی میدان وقتی طور پر جمود کا شکار رہا وہیں نظریاتی سوداگروں کو اپنی دکانیں چمکانے کا موقع مل گیا کہنے کو تو خضدار شہر میں کئی تعلیمی ادارے ہیں جو براہ راست ریاستی بیانیئے کو پروموٹ کرنے میں صف اول کا کردار ادا کر رہے ہیں جیسے کہ پاک اسلامک اسکول کا مالک جس کو بلوچ لڑکیوں کو کیڈٹ کالجز کے جال میں پھانسنے کا ٹاسک دیا گیا ہے، ریزیڈینشل کالج خضدار کے لیکچرار انعام اللہ مینگل کو منیر کے ساتھ مل کر لیول اپ اکیڈمی کی آڑ میں چھوٹے بچوں کو بطور کیڈٹ بھرتی کرنے کے عمل پر گامزن ہیں، ڈی پی سی گرلز برانچ میں پنجابی پرنسپل بوائز برانچ میں شفیق مینگل ڈیتھ اسکواڈ کارندہ ظفر تاج، گرلز کالج کی پرنسپل صاحبہ ہوں یا بوائز ڈگری کالج کے پرنسپل حمید لہڑی، ڈی ایم او اسحاق باجوئی یہ سب ایک تسلسل ہے خضدار کی نئی نسل کو غیر سیاسی رکھ کر قومی مزاحمت سے بیگانہ رکھنے کا لیکن ان میں ایک بات مشترکہ ہے کہ وہ لکیر کے اس پار ریاست دوستی کا علی الاعلان کرکے اپنی صفیں واضح کرچکے ہیں۔
رہی بات شہید پروفیسر عبدالرزاق کے نام پر چلائے جانے والے تعلیمی ادارے ( نیشنل سائنس اکیڈمی) کی تو بقول برز کوہی یہ لوگ نظریاتی ڈیتھ اسکواڈ ہیں اور ایسا ٹولہ سب سے خطرناک ہوتا ہے جو ایک جانب بظاہر تو نظریہ، سوچ، فکر، عمل، قوم، قومپرستی، قومی سیاست اور مزاحمت کی بات کرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ریاستی کارندے ہیں جو نوجوان نسل کو ورغلا کر غیر سیاسی کرنے کی راہ پر گامزن ہیں، ایک جانب یہ ٹولہ شہید کے نظریہ، فکر اور قربانی کا پرچار کرتا ہے، اپنی دکانداری چلانے کے لئے شہید کے اقوال اور تصاویر تک استعمال کرتا ہے دوسری جانب طلباء و طالبات کو طرح طرح کے ٹرینڈز میں مبتلا کرکے زہنی طور مفلوج کردیتا ہے۔
بشیر قلندرانی جس کے خاندان نے قومی تحریک میں بیش بہا قربانیاں دی ہیں لیکن موصوف خوف گزشتہ ایک دہائی سے لاہور میں سینکڑوں طلبہ کو بیوروکریسی جیسے ناسور کی نظر کر چکا ہے جس میں 30 سے زائد صرف توتک کے طلباء ہیں، اب یہی جناب اپنی ٹولی کے ساتھ اس ناسور کو خضدار میں پروموٹ کرنے کا ٹاسک لیکر وارد ہوئے ہیں۔
نظریاتی ڈیتھ اسکواڈز کا یہ ٹولہ بظاہر پالیٹیکل ممکنگ کے توسط سے خود کو قومی تحریک سے وابستہ ظاہر کرتا ہے دوسری جانب شہید کے نام پر چلائے جانے والے ادارے میں چودہ اگست، تیئیس مارچ، چھ ستمبر وغیرہ کو چھٹیاں دی جاتی ہیں یا تقاریب منائی جاتی ہیں لیکن شہید کی شہادت والا دن ہو یا یوم شہداء بلوچستان چھٹی اپنی جگہ غلطی سے بھی کوئی شہید کے نظریے، فکر، سوچ، سیاسی افکار، عمل کا تزکرہ تک اپنے لبوں پر لانا گوارا نہیں کرتا۔
کیا شہید پروفیسر عبدالرزاق بلوچ کا خضدار میں تعلیمی ادارہ چلانے کا یہی مقصد تھا جو آج نام نہاد خود کو شہید کا سیاسی وارث کہلانے والے بتاتے ہیں؟
کیا شہید نے اس لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا کہ بعد میں اس کے نام پر تعلیمی ادارے میں دکانداری کرنے والے نوجوان نسل کو سماجی برائیوں میں مبتلا کروائیں، انہیں ریاستی ڈسکورسز کا شکار کریں، انہیں بیوروکریسی کے توسط سے ریاستی سافٹ پاور یا ہارڈ پاور مشینری کا حصہ بنائیں ؟
اگر ان سوالات کا جواب نہیں میں ہے تو پھر اس ٹولے کو ایکسپوز کرنا وقت کی عین ضرورت ہے ورنہ تاریخ ہمیں ہرگز معاف نہیں کریگی، نیشنلزم کے لبادے میں چھپی ان کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرکے احتساب کرنا چاہئے، اپنے بچوں کو ایسے تعلیمی اداروں سے دور رکھیں محض نظریہ کا پرچار کرنے والے اپنے عمل کا جواب دیں قوم کو یا اپنی صفیں واضح کریں، شہید کا نام، تصویر، سوچ، فکر کے نام پر مزید دکانداری کرنا بند کریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔