ایران کے سرکاری میڈیا نے کہا ہے کہ پیر کے روز دمشق کے مضافات میں ایک اسرائیلی فضائی حملے میں ایران کے ایک اعلیٰ سطح کے جنرل ہلاک ہوگئے ۔
شام میں ایران کی نیم فوجی تنظیم پاسداران انقلاب کے مشیر، جنرل سید رضی موسوی کی ہلاکت ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب لبنان ۔ اسرائیل سرحد کے ساتھ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جھڑپیں مسلسل شدت اختیار کر رہی ہیں اور ان خدشات میں اضافہ ہورہا ہے کہ اسرائیل ۔حماس جنگ علاقے میں پھیل کر ایران کے حمایت یافتہ گروپوں کو بھی ملوث نہ کر لے۔
اس ماہ کے شروع میں شام میں اسرائیل کے حملوں میں دو اور جنرلز بھی ہلاک ہو ئے تھے۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ، ارنا اور برطانیہ میں قائم جنگ پر نظر رکھنے والے حزب اختلاف کے گروپ ، سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ اسرائیل نے ایک شیعہ زیارت گاہ کے قریب واقع مضافات پر حملہ کیا تھا۔
ایران نے موسوی کو جنرل قاسم سلیمانی کے ایک قریبی ساتھی کے طور پر بیان کیا جو ایران کی ایلیٹ قدس فورس کے سربراہ تھے اور جنوری 2020 میں عراق میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔
نہ اسرائیلی فوج اور نہ ہی شام کے سرکاری میڈیا نے حملے کے بارے میں فوری طور پر کوئی بیان جاری کیا ہے ۔
اگر چہ ارنا نے حملے کے بارے میں کوئی تفصیلات جاری نہیں کی ہیں، تاہم سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے موسوی کو اس کے بعد ہدف بنایا جب وہ علاقے کے ایک فارم میں داخل ہوئے جو مبینہ طور پر حزب اللہ کے متعدد دفاتر میں سے ایک تھا۔
لبنانی عسکریت پسند گروپ، شام کے پورے تنازعے میں ایران اور روس کے ساتھ مل کر صدر بشار الاسد کی حکومت کو اقتدار میں برقرار رکھنے میں ایک اہم فوجی کردار ادا کر چکا ہے۔
اسرائیل نے حالیہ برسوں میں جنگ سے تباہ حال شام میں حکومت کے کنٹرول کے علاقوں میں سینکڑوں حملے کیے ہیں ۔
اسرائیل عام طور پر شام میں اپنے فضائی حملوں کو تسلیم نہیں کرتا۔ لیکن جب وہ کرتا ہے تواس کا کہنا ہے کہ وہ وہاں ایران کی پشت پناہی کی حامل ان تنظیموں کو نشانہ بنا رہا ہے جو اسد حکومت کی حمایت کرتے ہیں ۔