بلوچستان کی سیاسی جماعتوں اور طلباء تنظیموں کے رہنماؤں، وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ، سابق وفاقی وزیر بلوچستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ، احمد جان، ماما قدیر ، علی احمد لانگو، نیاز بلوچ، ڈاکٹر حکیم لہڑی، جاوید بلوچ، قادر آغا، بی ایس او کے شکور بلوچ، بی ایس او پجار کے وائس چیئرمین بابل بلوچ، بساک کے چیئرمین شبیر بلوچ سمیت دیگر رہنماؤں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ جعلی مقابلوں میں لاپتہ بلوچوں کے قتل کا سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے ماورائے آئین اقدامات کی جوڈیشل انکوائری کراکر ملوث اہلکاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لاتے ہوئے لاپتہ افراد کے مسئلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کرکے تمام قوموں کو آئین میں دیئے گئے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور جعلی مقابلوں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری ہے اور اس حوالے سے حکومت کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں عالمی برادری کی خاموشی باعث تشویش ہے لاپتہ افراد کے اہل خانہ آج بھی جس کرب سے گزررہے ہیں اس کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں دوسرا کوئی نہیں لگا سکتا اس لئے حکومت اور متعلقہ حکام کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے لاپتہ افراد کے لواحقین کو اس اذیت سے نکالنے کے لئے اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی تاکہ لوگوں کو لاپتہ کرنے اور جعلی مقابلوں سمیت انسانی حقوق کی پامالی کو روکا جاسکیں۔
ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیر اہتمام انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر کوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ سیمینار سے اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔
مقررین کا کہنا تھا کہ بلوچستان جوکہ آدھے رقبے پر پھیلا ہوا پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور تمام سیاسی جماعتیں، وفاق میں بیٹھے ہوئے ارباب اختیار بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں لیکن صوبے کے وسائل کی فراہمی اور لاپتہ افراد کو منظر عام پر لانے فیک ان کائونٹر اور انسانی حقوق کی پامالی کو روکنے کی باری آتی ہے تو اس پر کوئی بھی توجہ نہیں دی جاتی آج کے اس سیمینار میں 8 نکاتی قرار داد کو منظور کیا گیا جس میں تمام لاپتہ افراد کی فوری بازیابی یقینی بناکر جبری گمشدگی کے سلسلے کو بند کیا جائے اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو اسے ملک کے قوانین کے مطابق گرفتار کیا جائے سی ٹی ڈی کے ہاتھوں پہلے سے لاپتہ کئے گئے بلوچوں کا جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کا سلسلہ روکا جائے ۔ بلوچستان میں جعلی مقابلوں میں لاپتہ بلوچوں کے قتل کا سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے ماورائے آئین اقدامات کی جوڈیشل انکوائری کرائیں اور ان میں ملوث اہلکاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے لاپتہ افراد جو دنیا میں نہیں ان کے خاندانوں کو بتایا جائے اور اس مسئلے کو ملک کے قوانین کے تحت حل کیا جائے پاکستان میں بسنے والی تمام محکوم اقوام کو آئین میں دیئے گئے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اسے سیاسی طور پر حل کیا جائے طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے اس کے علاوہ عثمان کاکڑ کی اقوام متحدہ نے جو رپورٹ طلب کی ہے وہ فراہم کی جائے اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں مختیار خان یوسفزئی ، محسن داوڑ اور منظور پشتین کے بلوچستان میں داخلے پر عائد پابندی ختم کی جائے۔ قرار داد کو شرکاء نے کثرت رائے سے منظور کیا اس موقع پر ذاکر مجید اور دین محمد مری کی والدہ مولا بخش ، غیاث الدین، نذر محمد مری، رحیم دین سمیت دیگر لاپتہ افراد کے اہلخانہ کی بڑی تعداد موجود تھیں۔