راجو ۔ دلمراد بلوچ

306

راجو

تحریر: دلمراد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

آج گریشہ میں لانگ مارچ کے استقبالی مجمع کی تصاویر میں سے میری نظر ایک چہرہ ڈھانپے خاتون کی تصویر پر ٹھہر سی گئی ـ غور سے دیکھا تو بمشکل ہی مگر پہچان لیا یہ تو میرا “راجو” ہے۔

ذہن سالوں پیچھے چلا گیا اور ناصر کی گرفتاری اور جبری گمشدگی کا قصہ پھر سے تازہ ہوگیا۔
آئیے درد بھرے بلوچستان میں آج راجو کا قصہ سنتے ہیں ۔

دس جنوری دو ہزار انیس کے دن گریشہ میں سینکری نامی ایک چھوٹے سے گاؤں میں پاکستانی فوج ایک گھر پر ہلہ بول دیتی ہے ـ اہلکار قادر نامی چھوٹے بچے کو اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن قادر کی ماں ’راجو‘ بچے سے اس طرح لپٹ جاتی ہے کہ فوجی اہلکاروں کے لئے بچے کو ماں سے الگ کرنا کارگل سرکرنے سے بھی زیادہ مشکل ہو جاتاہے ـ فوجی قادر اور ماں کو گھسیٹتے ہیں ،لاتیں ،گھونسے، بندوق کے بٹ مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی مگر ماں کو بچے سے جدا کرنے کی ہر ظالمانہ کوشش ناکام ہوجاتی ہے۔

لوگ بتاتے ہیں کہ فوجیوں کے جانے کے بعد ’راجو‘ بچے سے اسی طرح لپٹی رہی جیسا کہ مقناطیس لوہے سے چپک جائے ـ لوگ ماں کو بتاتے ہیں فوج جاچکی ہے مگر وہ تب تک نہیں سنتی جب تک اسے خود یقین کا سرا نہیں ملتا ـ ’راجو‘بچے کو اپنے آپ سے الگ کرکے خود پر نگاہ دوڑاتی ہے ـ اس کے زخموں سے خون رس رس کر بہہ رہا تھا ـ ۔

زخموں سے چور ’راجو‘ کہتی ہت ”یااللہ تیرا شکر کہ ناصر کو پہلے کراچی بھیج دیا ورنہ آج مشکل میں پڑجاتی کہ قادر کو بچاؤں یا ناصر کو محفوظ رکھوں” ـ

اپنے زخموں سے بے پروا”راجو“کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور وہ ناصر کو کراچی بھیجنے کی خوشی سے پھولے نہیں سماتی ـ وہ جانتی ہے فوج بڑی تیاری کے ساتھ معصوم بچے کے لئے نہیں بلکہ نوجوان ناصر کے لئے آئی تھی ـ۔

ادھر گریشہ ہی میں داردان کے مقام پر فوج کا ایک اور دستہ ایک منی بس کو روک کر اس سے ایک نوجوان کو اچک کر لے جاتی ہے ـ لوگ ڈر کے مارے بت بنے رہتے ہیں ـ یہ نوجوان کوئی اور نہیں بلکہ ’راجو‘ کا ناصر ہوتا ہے۔

جب یہ خبر ’راجو‘ تک پہنچتی ہے اس کے حلق سے فلک شگاف چیخ نکلتی ہے ”داردان میں کوئی ماں ہوتی تو وہ میرے ناصر کو نہیں لے جا پاتے“ ـ پھر وہ وہیں ڈھیر ہوجاتی ہے۔

راجو کے شوہر اور قادر و ناصر کے والد فقیر کینسر کے جان لیوا مرض میں کئی سال پہلے وفات پاچکا ہے ـ اس وقت بچے بہت چھوٹے تھے،”راجو“ نے محنت مشقت کر کرکے بچے پالے ـ ناصر بڑا بیٹا تھا ـ ناصرکے بچپن کے ”زمانے“ کا سینکری سکول سے محروم تھا سو وہ پڑھ نہ سکا لیکن قادر کی قسمت کہ ایک این جی اوزی سکول کھل چکا تھا ـ یہ سکول خضدار سے تعلق رکھنے والے نعیم صابر نے اپنی تنظیم کی طرف سے کھولا تھا لیکن سینکری جیسوں کی حرماں نصیبی کہ نعیم صابر خضدار میں قتل کردیے گئے،م ـ ان کے قتل کی ذمہ داری”حق نا توار“ نامی ڈیتھ سکواڈ نے قبول کی ـ انہی چند سالوں میں کچھ قادر جیسوں نے پرائمری سطح تک تعلیم حاصل کی نعیم کے بعد یہ سکول بھی ”قتل“ ہوگیا۔

ناصر اب بھی فوج کی تحویل میں ”لاپتہ“ ہے اور اب راجو کی کل دنیا چند بھیڑ بکری اور قادر ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر قادر سے لپٹ کر راجو کہتی ہے کہ ”داردان میں کوئی ماں ہوتی تو وہ میرے ناصر کو اٹھا کر نہیں لے جاتے“

نجانے کب بلوچستان کے ’راجو‘ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اپنے باقی ماندہ قادروں کو لپٹ کر رونا بند کریں گی ـ بتانا مشکل سہی لیکن اس کے آثار امید کی کوکھ میں پنہاں ہیں اور ایک دن امید کی کوکھ سے ضرور کونپل پھوٹے گی ـ اس دن امید پرستوں کی صبح ہوگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔