درد جب حد سے گزرتا ہے تو گا لیتے ہیں – سرباز وفا

325

درد جب حد سے گزرتا ہے تو گا لیتے ہیں

تحریر: سرباز وفا

دی بلوچستان پوسٹ

مزاحمت وہ شے ہے جو جبر سے نجات پانے کے ساتھ ساتھ مزاحمت کار کو انسانی تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر کردیتی ہے۔ مزاحمت جنس یا عمر کی پابند نہیں ہے اسے ہر باہمت شخص چاہے، وہ کرسکتاہے۔ میرے خیال میں مزاحمت پڑھنے سے نہیں بلکہ وقت اور حالات انسان کو سکھا دیتے ہیں۔

مزاحمت ہی وہ طاقت کا نام ہے جو ظلم اور ناانصافی کے خلاف جابر کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنے کی ہمت عطا کرتاہے۔ جابر چاہے اندرونی ہو یا کہ بیرونی قبضہ گیر کی شکل میں ،مزاحمت کارصرف حق اور راستی کے ساتھ کھڑا ہوکرسینہ سپر ہوتاہے ۔

بلوچ مزاحمت کے ایک وسیع تاریخ کے مالک ہیں، بلوچوں نے ہمیشہ بیرونی طاقتور جابروں کے خلاف جنگیں لڑی ہیں اور کبھی بھی کسی جابر کے سامنے اپنا سر نہیں جھکایا ہے۔ آج بھی بلوچ ایک غیرفطری اور غیر تہذیب ریاست پاکستان کے ساتھ اپنے وطن کی دفاع کی خاطر دلیری کے ساتھ مزاحمت کر رہاہے ۔

اس غیرفطری ریاست پاکستان نے پچھتر سالوں سے بلوچوں کی اس مزاحمتی تحریک کو کچلنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ بلوچ کے نومولود بچوں سے لیکر ماں، بہن اور ستر اسی سالہ بزرگوں کا شہادتیں ہوں یا جبری لاپتہ کرنا، ریاست نے مظالم کی تمام اقسام بلوچ قوم پر آزمائے ہیں لیکن ان تمام ظلم اور زیادتیوں کے باجود بلوچ قومی تحریک اپنے وطن کے دفاع کیلئے جاری و ساری ہے۔

اس غیرفطری ریاست کی طرف سے بلوچستان میں بہت سارے دل ہلانے والے واقعات رونما ہوا ہے لیکن اس میں ایک واقعہ 23 نومبر 2023 کو کیچ کی مرکزی شہر تربت “بانک ءِ کنڈگ” میں پیش آیا، وہاں پاکستان کے نام نہاد فورس کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ ( سی ٹی ڈی ) نے چار جبری لاپتہ افراد کو شہید کرکے سے انکاونٹر کا نام دے دیا۔ سی ٹی ڈی کی اس جعلی مقابلے میں مارے جانے والے نوجوانوں میں شہید بالاچ مولابخش، شہید سیف اللہ، شہید شکور اور شہید ودود شامل ہیں۔

شہید بالاچ مولابخش کی خاندان تعلیم یافتہ لوگ نہیں لیکن انہوں نے بلوچ قومی تحریک سے یہی سیکھا ہے کہ مزاحمت ہی زندگی ہے۔ شہید بالاچ کی خاندان نے دیگر متاثرہ لواحقین کی طرح خاموشی اختیار کرنے کے بجائے مزاحمت راستہ اختیار کیا۔

یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ قومیں اپنے مزاحمت کاروں کبھی اکیلا نہیں چھوڑتے ہیں اس پر ایک بلوچی کہاوت ہے ( ھمت مردان مدت ء ھدا) شہید بالاچ کی خاندان نے شہیدکی لاش کے ہمراہ احتجاج شروع کیاجو آج تحریک کی شکل اختیارکرچکاہے۔ تربت جیسے علاقے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی اکھٹا ہوکر اتنے دنوں تک احتجاج کرنا قابل ستائش ہے۔

شہید بالاچ کے خاندان نے ان کے لاش کے ہمراہ شہید فدا احمد چوک پر پانچ دن تک احتجاج کیا حکومت کی طرح سے ان کی مطالبات پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔ لاش کو تو ایک دن ضرور قبر میں جانا تھا لواحقین اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے شہید بالاچ کے لاش کو قبر میں دفنانےکا فیصلہ کیا، احتجاج کے چھٹے دن میں ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں بالاچ کو نعروں کے گونج میں خراج عقیدت پیش کرکےدفنایا گیا۔ تیرہ دن تک شہید فدا احمد چوک پر احتجاج کرنے بعد احتجاجی کمیٹی کی طرف تربت سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے کا اعلان ہوا اور شہید بالاچ کے والد پیرانہ سالہ مولابخش بھی لانگ مارچ کے ساتھ نکل پڑا۔

تربت سے لانگ مارچ نکل کر پنجگور اور گریشہ جانے کے بعد نال سے آگے چل جارہاتھا کہ سوراب اوراس سے آگے ریاستی مشینری کے طرف لانگ مارچ کی سبوتاژ کرنے کا ہر ناکام کوش جاری رہاہے تمام ریاستی حربوں کے باجود لانگ مارچ تربت سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب رہا۔

اسلام آباد میں پولیس نے احتجاجی لوگوں پر ہلہ بول دیا، مظاہرین کی گرفتاری اور شہید بالاچ کے خاندان سمیت تمام لاپتہ افراد کے لواحقین،بلوچ ماں ،بہنوں پر لاٹھی چارج ، بے حرمتی، بلوچ طلباکی گرفتاری نما لاپتہ کرنا تمام ریاستی جبر اس احتجاج کا حصہ بن گئے اور یہ احتجاج آج بھی جاری ہیں۔ اس لانگ مارچ میں شامل مظاہرین کے ساتھ جو بھی ہوا اس جدید دور میں سارے سوشل میڈیا میں وائرل ہوکر موجود ہیں۔

تمام مظالم اور جبر کے باوجود شہید بالاچ کے بوڑھے والد مولابخش کے حوصلے بلند ہیں۔ سوشل میڈیا کے توسط سے مجھے مولابخش کا ایک ویڈیو ملا جس میں وہ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے جاری دھرنے میں ڈاکٹر ماہ رنگ کے ساتھ بیٹھ کر ایک بلوچی گیت ( نازیناں بلوچان ءَ ) گارہا تھا۔ یہ ویڈیو مجھے بہت پسند ہوا اور میں نے یہ ویڈیو کہیں بار دیکھتا۔

میں نے اس ویڈیو سے یہی محسوس کیا کہ شہید بالاچ کے والد مولابخش غم بھلاکر اپنے بیٹے کے لازوال قربانی اور اپنے بلوچیت پر فخر کر رہاہے۔ مولابخش کا بلند حوصلہ دیکھ کر مجھے ہندوستان کی نامور شاعر ندا فاضلی کا یہ شعر یاد آیا۔

دل کی تنہائی کو آواز بنا لیتے ہیں
درد جب حد سے گزرتا ہے تو گا لیتے ہیں


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔