تونسہ اب اپنا مزاحمتی لٹریچر ترتیب دے گا
تحریر: یوسف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میرے نزدیک تونسہ وہ طفل ہے جو بہرا بھی نہیں،اندھا بھی نہیں لیکن اسے بہرا، اندھا کرنے کے لیے تمام حربے آزمائے جاچکے ہیں۔
مثلاً پہلی ضرورت یہ تھی کہ اسے اس محّلے سے الگ کیا جائے جہاں کی روڈوں پر صرف خون کے دھبے ہیں،چیخ و پکار ہے،اشرف المخلوقات کا قانون دو گروہوں کے لیے الگ و تقسیم ہے، بلند آواز پست ہیں۔ یہاں تک کے تمام راستے بند ہیں۔
تونسہ وہ طفل بچّہ جو بڑھا ہوا تو اسے پڑھایا گیا مغل بادشاہ کون ہے،محمد بن قاسم و سندھ کیونکر آپکے میراث ہیں،بیرونی ایجنٹ کہاں برآمد ہوتے ہیں،ملک کے خلاف سازشیں کون کروا رہا ہے،کون سہولتکات ہے،بھٹو و سپہ سالار آپ کے خون ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔
محض تونسہ کو نوجوانی کی دہلیز پر پہنچتے پہنچتے وہی کچھ پڑھایا گیا جسے تونسہ کا خون انکاری ہے۔ تونسہ کو بلوچ سے نہ صرف الگ کیا گیا بلکہ اسے کوئی اور بنانے کے لیے پسینہ بہایا گیا۔
ایک منظر شاید یہ ہے کہ ہونہار تونسہ جوانی میں وہی کچھ پریکٹس کر رہا ہے جسے پاکستان اسٹڈی کے زریعے ٹھونسا گیا تھا۔ تونسہ موجودہ وزیر سے خوش بے خیال،اگر خوش نہیں تو انتظار میں ہے تو دوسرا لازماً ہمارا نجات دہندہ ہوگا۔
اسی چکّر میں تونسہ یہ پتہ لگانے بھول گیا کہ محمد بن قاسم کونسی ”پشت“ سے انکے آباؤ اجداد ہے،مغل انکا کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔
تونسہ کو پہلا جھٹکا تب لگتا ہے جب سینکڑوں لوگ انکے دہلیز پر پہنچ کر اسے اپنا کہہ رہے ہوتے ہیں،اسے بچھڑا بچّہ کہہ رہے ہوتے ہیں اور یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ تم بلوچ ہو اور تمہارا خون کا تعلق بلوچستان سے مطابقت رکھتا ہے۔
تونسہ کب یہ سب باور کرے وقت تو لگتا ہوگا لیکن تونسہ پنجاب سے کب چھٹکارا پالے،مغل سے دوری کیسے اختیار کرے،بن قاسم کو کیسے ذہن سے نکال لے یہ تو بڑا چیلنج ہے۔
تونسہ کے مہمان وہ سب کہہ رہے ہیں جو اسکی فرمانبردار تعلیمات سے یکسر مختلف ہے۔ مثلاً تونسہ کو بلوچ کے بارے جو آشنائی ہے وہ چور کی ہے،ڈاکو کی ہے،جاہل کی ہے،اس دنیا سے ناکارہ انسان کی ہے۔
لیکن تونسہ جو دیکھ رہا ہے وہ اُس انسان کی داستان ہے جو بقا،زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ مسخ لاش کی ڈر کے باوجود زندہ ہونا چاہتا ہے۔
بلوچ لانگ مارچ و تونسہ شریف کی داستان تقریباً یہی ہے۔ تونسہ آج جو دیکھ رہا ہے وہ ان کہی ہے،ان دیکھی ہے۔ لیکن تونسہ اجتماع بن کر دیکھ رہا ہے۔
رات تلک یہ دیکھنے کے بعد جب تونسہ کا باسی صبح اٹھے گا تو کیا فیصلہ کر جائے گا یقیناً عمر بھر کی داستان سے یکسر مختلف ہوگا۔
تونسہ کو مبارک ہو کہ وہ نیا دیکھ رہا ہے،نیا سن رہا ہے،نیا سوچ رہا ہے۔
بچھڑے بھائی کا ایک اور مبارکی یہ قبول ہو کہ تونسہ کو اب اپنا تاریخ مل گیا ہے۔ وہ تاریخ جسے تونسہ تک پہنچنے میں دہائیاں لگیں۔ یہ تاریخ ہزاروں چوکیوں سےگزر کر پہنچا ہے اسی لیے پیشگی مبارک۔
اب تونسہ جو فیصلہ کرے گا اسے تُربَت کچھ کہے بنا قبول کرے گا کیونکہ یہ فیصلہ ایک جستجو کا پیداوار ہوگا اور وہ جستجو تُربَت سے تشدد سہتا تونسہ پہنچ چکا ہے۔
بہرحال اس جستجو کا مطالعہ پاکستان سے کسی قسم کا تعلق نہیں۔
جاتے جاتے آخری پیغام کہ یہ جستجو جانی،مالی نقصان سے پاک ہے اور یہکہ اس جستجو کے ہاں جان و مال قومی میراث ہوں گے،فردی نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔