بلوچ کی بدقسمتی ۔ عزیز سنگھور

670

بلوچ کی بدقسمتی

تحریر؛عزیز سنگھور
دی بلوچستان پوسٹ

میر چاکرِ اعظم رند اپنی بہادری اور دلیری کے باعث برصغیر کے طاقتور ترین حکمرانوں میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے شیرشاہ سوری جیسے طاقتور حکمران کو شکست دی اور مغل بادشاہ، ہمایوں بابر کو دوبارہ دہلی کا تخت واپس دلوایا۔

میر چاکر خان رند صرف ایک نام یا ایک شخصیت نہیں تھی بلکہ انہوں نے بلوچ سماج کی اخلاقیات اور رسم و رواج کو مزید تقویت دی۔ انہوں نے بلوچ سوسائٹی میں سوشل ویلیوز کی جدید بنیاد رکھی۔ آج بھی ہر بلوچ ان ہی کے قائم کردہ اصولوں کی پابندی میں فخر محسوس کرتا ہے۔ ان کی بنائی ہوئی معاشرتی اخلاقیات کی روگردانی کرنے والا فرد کا سماجی بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ اور بلوچی روایت کی روگردانی کرنے والے سے “بلوچ” کا لقب واپس لیا جاتا ہے۔ چاہے وہ شخص خود بلوچ ہی کیوں نہ ہو۔ بلوچیت (بلوچی کردار کے اصول) ایک معیار اور رتبے کا نام ہوتا ہے۔

میر چاکر خان رند خود بھی بہادر تھے اور بہادر دوستوں کی ہی نہیں بلکہ دشمنوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور بقول میر چاکر “بہادروں کا انتقام بھی مجھے پیارا ہے جو میرے اونچے قلعوں پر حملہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں”۔

لیکن آج بلوچ کی بدقسمتی ہے کہ ان کے مدمقابل ان کے معیار کے مطابق نہیں ہے۔ ان کے جنگی اصول جنگی روایت کے منافی ہے۔ ان کا کوئی اصول اور روایت نہیں ہے۔

نوبت لاوڈ اسپیکر کی چوری تک پہنچ چکی ہے۔ اس طرح کی گری ہوئی حرکت کرنے سے ان کے معیار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پانچ ہزار روپے کے اسپیکر لے جانے کے لئے دو دو کروڑ کی ویگو گاڑی آتی ہے۔ اگر جاپان کی ٹویوٹا کمپنی کو معلوم ہوتا ان کی بنائی ہوئی گاڑی سے اس لیول کا کام بھی لیا جارہا ہے۔ تو وہ ویگو گاڑی ہی نہیں بناتی۔ کیونکہ اس حرکت سے ویگو گاڑی بنانے والی کمپنی کی بھی توہین ہوئی ہے۔

بقول چاکر خان رند کے “سچ بولنا بلوچوں کا شیوہ ہے اور جھوٹ ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے” بلوچ معاشرے میں جو کوئی جھوٹ بولے اور وعدہ خلافی کرے تو ان کی معاشرے میں کوئی مقام و عزت نہیں ہوتی۔

لیکن سرکارکی جانب سے بولے گئے جھوٹ کے سامنے خود جھوٹ بھی شرمندہ ہوگئی ہے۔ سرکار اس بات سے انکاری ہے کہ ان کے پاس کوئی بھی لاپتہ افراد موجودہے۔

بھائی جان! پھر انہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ پندرہ پندرہ سالوں سے جبری گمشدگی کے شکار لوگوں کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا جارہا۔ لانگ مارچ کے شرکا اپنے پیاروں کی بازیابی چاہتے ہیں۔ کسی کا والد، کسی کا بھائی اور کسی کا بیٹا کئی سالوں سے جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔ ان کا صرف یہ معصومانہ مطالبہ ہے کہ اگر ان کے پیارے زندہ ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ بے شک اگر کسی نے جرم کیا ہے تو انہیں سزا دی جائے۔ وگرنہ انہیں بازیاب کیاجائے۔ لیکن سرکار اپنے آئین و قانون کی روگردانی کررہی ہے۔

بقول میر چاکر خان رند کے ” بلوچ لوگ عورتوں اور بچوں پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھاتے، مہمان اور مہمان نوازی بلوچ معاشرے کا ایک لازمی حصہ ہے اور مہمانوں کو خدا کی نعمت سمجھتے ہیں”۔

لیکن آج ہمارے حکمران اس قول کے برعکس چل رہے ہیں۔ ان کی ڈکشنری میں “عزت” نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے اسلام آباد پہنچنے والے لانگ مارچ کے سینکڑوں شرکا پراسلام آباد پولیس نے حملہ کرکے ملکی آئین و قانون کی دھجیاں اڑادی ہیں۔ بلوچ خواتین اور بچیوں تک کو نہیں چھوڑا گیا۔ بلوچی رسم و رواج کی پامالی کی گئی۔ غیر مہذب پولیس نے بلوچ روایات کو طاقت کے ذریعے روند ڈالا۔ بلوچی دوپٹہ خواتین کے سروں سے گن پوائنٹ کے ذریعے اتارا گیا۔ انہیں بالوں سے گھسیٹا گیا۔ اور زبردستی پولیس موبائلوں میں ڈالا گیا۔ انہیں مختلف تھانوں میں قید رکھا گیا۔

لانگ مارچ کے شرکا اسلام آباد اس امید کے ساتھ گئے ہیں کہ انہیں ملک کی آئین و قانون کے مطابق انصاف ملے گا۔ ان کے مطالبات میں لاپتہ افراد کی بازیابی، ماورائے عدالت کارروائیوں کے خاتمے اور زیرحراست بالاچ بلوچ کی ہلاکت پر جوڈیشل انکوائری جیسے نکات شامل ہیں۔

دوسری جانب پاکستانی میڈیا سے تعلق رکھنے والی غریدہ فاروقی اور افضا خان نامی دو نام نہاد اینکرپرسنز کو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو ذہنی اذیت دینے کے لئے اسائن کیا گیا ۔ دراصل یہ اپنی سرکاری نوکری کررہی ہیں۔ ان کی دانا پانی کا مسئلہ ہے۔ ان دونوں کا تعلق صحافی برادری سے نہیں ہے۔ دونوں کو صحافت کا الف اور ب تک کا نہیں آتا ۔ صحافت ایک معزز پیشہ ہے۔ لیکن یہ دونوں اینکرپرسنز پیراشوٹرز ہیں۔ انہیں اوپر سے لایا گیا ہے۔ زمینی حقائق سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔ یہ نامعلوم افراد کی نامعلوم صحافتی مخلوق ہیں۔ ان کی صحافتی صلاحیتیں صفر ہیں۔ تاہم وہ دیگر صلاحیتوں سے سرشار ہیں۔

اب مجھے خدشہ ہے کہ لانگ مارچ کے شرکا کی لوڈ اسپیکر کی چوری کے بعد وسیم سفر زامرانی کی وہیل چیئر بھی چوری ہوجائیگی۔ ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والا وسیم سفر زامرانی اپنی وہیل چیئر کے ساتھ لانگ مارچ کا نہ صرف حصہ ہے بلکہ لانگ مارچ کے منتظمین میں شمار ہوتا ہے۔ جس نے تربت سے لیکر پنجگور، گریشگ، نال، خضدار، سوراب، قلات، مستونگ، کوئٹہ، کوہلو، بارکھان، کوہ سلیمان کا سفر اپنی وہیل چیئر پرطے کیا ہے۔ وہ ذہنی طور پر ایک مضبوط اعصاب کے مالک شخص ہیں ۔ جن کی اخلاقیات اسپیکر چوروں سے کئی زیادہ بلند ہے۔ اسی عمل کو میر چاکر خان کی “بلوچیت” کہا جاتا ہے۔ بلوچیت ایک کردار کا نام ہے۔ ایک کیفیت کا نام ہے۔ اگر یہ کردار کوئی غیر بلوچ اپنائے تو بلوچ اس کو بلوچ ہونے کی ایسوسی ایٹ ممبر شپ دیگا۔ آج حامد میر، محمد حنیف، عاصمہ شیرازی، مطیع اللہ خان اور دیگر “ایسوسی ایٹ بلوچ” بن چکے ہیں۔ بلوچ ان کی بلوچی کردار کو سرخ سلام پیش کرتےہیں۔