بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے بلوچ نسل کشی کے خلاف لانگ مارچ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی طرف روانہ، رات کو کوہلو میں قیام کیا جائے گا اور وہاں جبری لاپتہ افراد کیلئی رجسٹریشن کیمپ قائم کیا جائے گا۔
اسلام آباد روانگی سے قبل سریاب میں ایک ریلی نکالی گئی جس میں جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کی بڑی تعداد شریک رہی اور اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
ریلی شرکاء نے تربت سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کے شرکاء پر ایف آئی آر کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ حکومت جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کے بجائے لواحقین اور پرامن احتجاج کرنے والوں کو پریشان کررہی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کوہ سیلمان کے بلوچوں کے نام جاری ایک پمفلیٹ میں کہاکہ بلوچ قوم کی جانب سے گزشتہ23 دنوں سے ریاستی دہشتگردی اور تشدانہ پالیسیوں کے خلاف بلوچستان بھر میں ایک تحریک جاری ہے جس میں خواتین و بزرگ، بچے و نوجوان سب شامل ہیں۔ تحریک کے پہلے فیز میں کیچ میں دھرنا دیا گیا، شٹر ڈاؤن و پہیہ جام ہڑتالیں کی گئی جبکہ اس دوران بلوچ راج نے بھرپور حمایت جاری رکھی جو اس وقت بھی شدت سے جاری ہے۔ اس لانگ مارچ کے دوران ریاست نے ہر طرح کی بربریت کا مظاہرہ کیا تاکہ لانگ مارچ کو ناکام بنایا جا سکیں۔ لاپتہ افراد کے لواحقین جو اس وقت لانگ مارچ کا حصہ ہیں انہیں دو سے تین مقامات پر تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا لیکن تحریک نے ریاست پر واضح کر دیا ہے کہ جب تک ریاست بلوچستان میں جاری اپنی نسل کشی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں لائے گی بلوچ قوم ان کے خلاف شدت سے مزاحمت جاری رکھیں گے۔
پمفلیٹ میں مزید کہا گیا کہ بلوچستان میں جاری لانگ مارچ جس میں ہر علاقے سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ شمولیت اختیار کر رہے ہیں وہ ریاستی ظلم جبر اور ناانصافیوں کے خلاف بلوچ قومی ریفرینڈم ہے کہ اب بلوچ مزید ریاستی تشدد اور غیر انسانی پالیسیوں کو قبول نہیں کرے گی۔
مزید کہا گیا کہ اس وقت صرف مکران یا جھالاوان ریاستی جبر تشدد اور ناانصافیوں کا شکار نہیں بلکہ بلوچستان کا ہر کونہ ہر گاؤں اور ہر شہر ریاستی دہشتگردی سے متاثر ہے۔ یہ جبر اور ظلم مکران سے کوہلو تا ڈی جی خان تک پھیلا ہوا ہے اگر ہم اس ظلم جبر اور ناانصافیوں کو روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس تحریک کو ویلکم کرتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں نکل کر ریاست پر واضح کرنا ہوگا کہ بلوچ قوم مزید ریاستی دہشتگردی قبول نہیں کرے گی اور بالاچ کی شہادت سے پیدا ہونے والی تحریک کا حصہ بنے گی اور اس کا بھرپور ساتھ دے گی۔ ریاست ہمیں لاشوں پر لاشیں دے رہی ہے آئے دن جبری گمشدگیاں، مسخ شدہ لاشیں اور اب ان میں فیک انکاؤنٹر کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے تحت ریاست شہروں اور گاؤں سے لاپتہ ہونے والے نوجوانوں کو زیر حراست رکھ کر جب بھی دل کرتا ہے انہیں فیک انکاؤنٹر میں نشانہ بناکر شہید کر دیتے ہیں اور بعدازاں میڈیا میں مقابلے کا جعلی ڈرامہ رچاتے ہیں تاکہ دنیا اور پاکستان کے دیگر لوگوں کو بلوچستان کے حوالے سے گمراہ کیا جا سکیں۔ بلوچستان سے اس وقت ہزاروں کی تعداد میں لوگ لاپتہ ہیں جبکہ ہزاروں کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی گئی ہیں یا انہیں فیک انکاؤنٹر میں نشانہ بنایا گیا ہے اگر ہم نے مزاحمت کا راستہ اختیار نہیں کیا اور ریاستی جبر کے خلاف اس تحریک کا حصہ نہ بنے تو ریاست کو بلوچستان میں مزید قتل و غارت گری کا موقع ملے گا۔ وہ قومیں جو اپنے لوگوں کے لاشوں پر مزاحمت کے بدلے خاموشی کو ترجیح دیں ان کیلئے دنیا میں کوئی بھی آواز نہیں اٹھاتا قومیں خود مزاحمت کا راستہ اخیتار کرکے ہی اپنے اوپر ہونے والی جبر اور قتل و غارت گری کو روک سکتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ یہ تحریک اب شال سے کوہ سلیمان کی جانب رواں دواں ہوگا جہاں کوہلو، بارکھان اور ڈی جان خان کے بلوچوں تک پہنچے گا جس طرح کیچ سے لیکر شال تک ہر علاقے سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے اپنے گھروں سے نکل کر اس تحریک کو ویلکم کیا اور اس کا بھرپور ساتھ دیا امید کرتے ہیں کہ کوہ سلیمان کے ہر علاقے سے بھی بلوچ راج اس تحریک کا بھرپور ساتھ دینگے اور اس جدوجہد میں بھرپور شرکت کرکے دنیا کو بلوچستان میں ہونے والی ناانصافیوں کے حوالے سے آگاہ کرینگے اور بلوچ قومی قوت و اتحاد کا بھی مظاہرہ کرینگے۔ مکران سے شروع ہونے والی یہ تحریک جھالاوان سے اب کوہ سلیمان کے مقام پر پہنچ رہی ہے جہاں اب یہاں کے غیور بلوچوں پر بھاری زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس تحریک کو منظم آواز کی شکل میں آگے پہنچائیں تاکہ ریاست کو ایک قومی پیغام پہنچایا جا سکیں کہ مکران سے ڈی جی خان تک تمام بلوچ راج اس وقت ریاستی جبر اور ناانصافیوں کے خلاف ایک ساتھ کھڑا ہے۔