بلوچ مارچ اور داشتہ صحافی
تحریر؛ رامین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
”انقلابات تاریخ کے انجن ہوتے ہیں“کارل مارکس کا یہ درست اور مستند جملہ تربت سے اٹھنے والے طویل مارچ اور اس دوران بلوچ خواتین، عوام اور نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر اس انقلابے ریلے میں حصہ داری پر صادق آتاہے کہ انقلابی عمل! حادثہ یا کوئی جذباتی رد عمل نہیں ہوتابلکہ یہ سائنسی حقائق سے بھر پور ایک تاریخی زمینی پس منظر رکھتی ہے۔ حالیہ احتجاجی مارچ جس کی سب سے بڑی کامیابی بلوچ عوام کی منظم جرائت حوصلہ اور قربانیوں کا وہ بحر ہے جو انقلاب برپاء کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں بلوچ قوم کی اس احتجاجی عمل میں حصہ داری شعوری شمولیت اور اظہار یہ ثابت کرچکاہے کہ رک جانے سے منزل نہیں ملتی، سفر کرنے سے راستے کٹتے ہیں بغیرجدوجہد غلامی سے نجات نہیں ملتی، درد سہنے سے دردکم نہیں ہوسکتا، خاموش رہنے، آنکھیں بند کرنے سے کوئی آفت ٹل نہیں سکتا۔ دہائیوں سے جاری استعمار کی تشددکا یہ کھیل مصالحت اور ہاتھ باندھنے سے ختم نہیں ہوسکتا،زنجیروں کی جکڑ میں رہ کر صبح نو کی امید نہیں کیا جاسکتا، معمول کو توڑنا ہوگا ، اٹھنا ہوگا، روشنی کا سراغ ڈھونڈھنا ہوگا، سفر کرناہوگا، استعمار یت کی ریت، روایت اور جبر کو چیلنج کرنا ہوگا،اس کی نوآبادیاتی و نفسیاتی حربوں کو بے نقاب کرناہوگا۔
حالیہ احتجاجی مارچ جو ایک واضح چارٹرآف ڈیمانڈ کے ساتھ بلوچ فرزندان کی جبری گمشدگیوں اور فرضی مقابلوں میں قتل کرنے کے خلاف ہے جس کو سبوتاژ کرنے کے لئے ریاست اپنی تمام تر طاقت اور مشینری کو استعمال کرنے کے بعد بھی نفسیاتی اور اعصابی شکست سے دوچار اور محدود ہوکر رہ گیاہے۔ تربت سے اسلام آباد تک دوران حتجاج بلوچ مارچ کو منتشرو کمزور کرنے اور رکاوٹ بننے کے باوجود یہ مارچ پنجابی استعمار کی حیوانی نظام اور پالیسیوں کے خلاف اسلام آباد پہنچ کر جہاں اپنی آوازعالمی دنیا تک پہنچانے میں کامیاب ہوجاتی ہے وہاں انسان دوست مکاتب فکر اور دیگر مقبوضہ پشتون اور سندھی اقوام بھی ریاست کی بدترین تشدد اور بلوچستان میں جاری انسانی المیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
حتی کہ بلوچ عوام کے ”غیر سرگرم حصہ“ بھی ریاست کی جارحانہ پالیسوں کی مذمت کرتے ہیں ماسوائے ان سرداروں نوابوں اور پارلمینٹیرین کے جو پنجابی استعمار کے دھن پر رقص کرتے ہیں بلوچ وطن کا کوئی بھی ایسا علاقہ نہیں جو سراپاء احتجاج نہ ہو اہواس احتجاجی مارچ کی ترجیحی کامیابی کی حاصلات عالمی دنیااور انسانی حقوق کے بین الاقوامی و علاقائی اداروں سے وابسطہ اور عالمی برادری کی سیاسی سفارتی اور اخلاقی حمایت ہے جوریاستی جبراور ان کے متششدانہ پالیسیوں کے خلاف اپنا موقف و بیانیہ دیکر پاکستانی چہرہ کو دنیا کے سامنے لاکر ایکسپوز کررہے ہیں مختلف ممالک کی جانب سےبلوچ لانگ مارچ کی حمایت اوریاست کی غیر انسانی افعال کی مذمت بلوچ قومی جدوجہد کی بڑی کامیابی ہے۔
دیکھا جائے تو بلوچ نسل کشی پریورپی وپارلیمنٹ برطانوی ادارے امریکی وزیر خارجہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل پاکستانی ریاست کو جوابدہ ٹہراتے ہیں ار جنٹینیا اور کرد اقوام کی جانب سے بلوچ قومی جدوجہد کی حمایت کی جاتی ہے عالمی دنیا اور عالمی میڈیا کی یکا یک توجہ مبذول ہوجاتاہے یہ ایک مثبت پیش رفت ہے کیونکہ قابض سے انصاف کی توقع ایک یوٹوپیائی خواب ہوگا اس کی فطرت اور خمیر میں انصاف نہیں اسلام آباد کی بڑی بڑی اور پوش عمارتیں مظلوم اقوام کی خون اور ان کی وسائل کی لوٹ سے تعمیر ہوئی ہے اور ان عمارتوں کی نرسریاں ناانصافی اور ظلم کے پود ہیں۔ یہاں انصاف نہیں خون ریزی کی تربیت دی جاتی ہے۔
قابض سے انصاف کی توقع کرنا مقبوضہ قوم کی جدوجہد کی توہین کی مترادف ہے احتجاج میں بیٹھے کل مظاہرین کو معلوم ہے کہ یہاں سے انصاف نہ پہلے ملائے نہ مستقبل میں کسی قسم کی امید ہے۔ اور یہی ہوا جس کی توقع تھی آدھی رات کو بلوچ احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے ان پر بدترین تشدد کیا گیابچوں اور خواتین تک کو نہیں بخشا گیا واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا مظاہرین کو جبرا لاپتہ کیا گیا انہیں حراست گاہوں میں سلاسل کیا گیا،شدید عوامی دباؤ کے بعد مظاہرین بازیاب ہوئے لیکن ان کے پیارے تاحال بازیاب نہیں ہوسکے۔
چار ہفتے مکمل ہونے کوہے لیکن ریاست مسلسل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہاہے کیونکہ بلوچ تحریک سے ان کی دشمنی روز اول کی ہے اور تحریک جتنی بھی ”پر امن“ ہولیکن اس کا وجود ہی ریاست کے لئے اشتعال انگیز ہوتاہے”سپیکر چوری“جیسی سبک حرکتیں سیمینارمیں انتشار پیداکرنے کی کوشش اور بلوچ مظاہرین کو ”موجیں“کرنے والے جیسے گھٹیا الفاظ جان اچکزئی کے ماہ رنگ بلوچ کو”دہشت گرد کی بیٹی“کہنے والے جملے یا غریدہ فاروقی اور فضاء جیسی ضمیر فروش صحافیوں کی”سوالات“ بلوچ قوم سے غیر معمولی نفرت کا اظہاریہ کل ریاست کی مکروہ بیانیہ اور پروپیگنڈا سٹرٹیجی کا حصہ ہے۔
لیکن ماہ رنگ بلوچ سمی دین اور بلوچ خواتین قیادت نے بلوچ قوم کو امیداور حوصلہ بلند کئے ہوئے ہیں۔ ماہ رنگ بلوچ نے قوم کو جدوجہد اور جینے کا ڈھنگ عطاء کی ہے انہیں راستہ دکھایاہے آج بلوچ عوام ماہ رنگ کے دروشم میں خود کو دیکھ رہے ہیں۔
ریاست کا بلوچ قوم سے نفرت کے اس کھلے اظہارکے پیچھے بلوچ تحریک کی کامیابی کا خوف ہے۔ قبضہ اور تسلط چھن جانے کا خوف۔ یہ وہ خلیج ہے جو ریاست کو اندر سے کھوکھلی کررہی ہے ریاستی نفرت کے پیچھے اس کی طاقت نہیں اسے اپنی موت اور شکست صاف دکھائی دے رہے ہیں۔
ہم نے کھبی بھی یہ نہیں کیا کہ اسلام آباد کے ان بد روح عمارتوں کے ارد گرد انسان دوست لوگ یامکاتب فکر موجود نہیں ہے ایسے لوگ ہزاروں کی تعداد میں ہیں جو بلوچ مظاہرین کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کررہے ہیں اور تواتر کے ساتھ مظاہرین کے کیمپ میں آرہے ہیں بلوچ قومی تحریک کسی نسل کے خلاف نہیں یہ کوئی نسلی امتیاز کی جنگ نہیں بلکہ یہ ایک قومی جنگ ہے جو قبضہ گیریت کے خلاف ہے
پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ بلوچ خواتین پر تشدد کے خلاف بلوچستان میں منظم پیمانہ پر ماس موومنٹ مظاہرہ کئے گئے بلوچ عوام ہر اول دستہ جدوجہد کے ساتھ حصہ دار رہے، احتجاجی مظاہروں نے ثابت کردیا کہ جدوجہد کے کامیاب حمایت کے لئے ٹھوس بنیاد بلوچ عوام اور عالمی دنیاہے جو ریاست کو غیر مسلح اور غیر موثر کرسکتاہے۔
کیونکہ قابض میں میں اتنی اخلاقی جرائت نہیں ہوتی کے اس سے کسی طرح کے مثبت پیش رفت کی امید ممکن ہو یا وہ غیر مسلح ہو۔ ہم نے دیکھ لیا کہ بلوچ عوامی جدوجہد کے شدت کے باوجود ریاست اپنی ہٹ دھرمی پر مسلسل قائم رہے اور ان کے مجرمانہ بیانیہ میں کوئی نمایاں فرق نہیں آیا۔ اس دوران بھی بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگی اور تشدد کا سلسلہ رک نہ سکا جب جبری گمشدگیوں کی آواز کی گونج عالمی ایوانوں میں سنائی گئی ہم نے دیکھ لیاکہ ریاست صرف تشدد پر ٹکی نہیں کرتا، بلکہ تکنیکی انداز میں احتجاج کی اصولی موقف کو سبوتاژ کرنے کے لئے میڈیا ٹرائل اور انفلوئنسرز کا طریقہ کار بروئے کار لاتے ہوئے پنی آلہ کار صحافی بھی ٹرین کرتی ہے۔
کیونکہ جس ماحول میں توٹھ پیسٹ بیچنے سے لے کرسچ بیچنے تک انفلوئنسرز کا سہارا لیاجاتاہے تو وہاں ایسے کرائے کے صحافی تیارکونسا مشکل کام ہے جو اس منڈی کے لئے کار آمد نہ ہو
پاکستان میں صحافت کا معیار انتہائی حد تک گراوٹ کا شکار ہیں بلوچستان میں انسانی حقوق کی بدترین واقعات کھبی بھی مین سٹریم میڈیا میں جگہ نہ پاسکے اور نہ ہی کوئی پاکستانی صحافی بلوچستان آکر آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انداز میں رپورٹنگ کی ہمت کی اگر دیکھا جائے تو پاکستانی زرائع ابلاغ کا بیانیہ بھی آئی ایس پی آر کی بیانیہ کے دائرہ سے کھبی بھی نہیں نکلا پاکستان میں اکثر ٹی وی چینلز اور پرنٹ میڈیا ریاستی پروکسیز کا کردار ادا کرتے ہیں۔
جن کا جھکاؤ اولین دن سے ریاست کی طرف رہاہے بلکہ ان کی جانب سے کھبی بھی صحافتی اصولوں اور اقدار کو منظر رکھنے کے بجائے ریاست کے سٹپنی کردار کوترجیح دی گئی حالیہ دنوں بلوچ مارچ کے موقف اور مطالبات کو مکارانہ طور پر زائل کرنے کی کوششیں کی گئی غریدہ فاروقی نے احتجاج کی قیادت کرنے والے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے اس انداز میں سوال کیا جیسے ماہ رنگ مظاہرہ میں نہیں بلکہ ریاست کے کسی تفتیشی مراکز میں ہیں۔ غریدہ فارقی کا رویہ اور لب و لہجہ سے ایک لمحہ کے لئے بھی یہ تاثر اخذ نہیں کیا جاسکتاکہ وہ ایک صحافی ہے بلکہ ان کے انداز اور سوالات کا متن کسی میڈیا ڈیسک کا نہیں بلکہ آئی آیس پی آر کے ہیڈ کوارٹر میں بنائے گئے تھے جس نے اپنے ضمیر اور قلم کو بیچ کر صحافت کی مقدس پیشہ کو داغدار اورصحافت کی اخلاقی اقدار کو مجروح کیا۔
ا
غریدہ فاروقی اور فضاء جیسے صحافیوں کی یہ طرز عمل آج کا نہیں بلکہ اس سے قبل فرزانہ بلوچ اور سمی دین بلوچ کے ساتھ بکاؤ صحافیوں کا رویہ اسی طرح یکسان رہا ہم نہیں کہتے کہ صحافیوں کے اس بھیڑ میں انسان دوست صحافی موجود نہیں بلکہ حامد میر اور دیگر چند صحافیوں کا ایک معتبر کردار ہے لیکن جو صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو ایمانداری سے ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا حقائق اور سچ کا ساتھ دیتے ہیں تو ڈیپ سٹیٹ کے منصوبہ ساز ان کی موت کا سامان تیار کرتے ہیں انہیں خوف زدہ اور تذبذب سے آلودہ کرتے ہیں یا پھر ان کی نصیب بھی جبری گمشدگیوں کی فہرست کا حصہ بن جاتاہے ۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جب اس سے کراس کوءئسچن اس کا سوال اس کو لوٹادیتاہے کہ کیا تم ریاستی جبر اور بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہو تو غریدہ فارقی کی زبان پر آبلے پڑتے ہیں رعب جمانے والے صحافی یک دم گنگ اور ششدر رہ کر ڈھٹائی کے ساتھ بار بار وہی جملہ دہراتی یے کہ آپ مسلح تنظیموں کی مزمت کرتی ہو! غریدہ فارقی کا یہ تذبذب ظاہر کرتاہے کہ وہ صحافی کے بھیس میں ریاست کا آلہ کار اور لے پالک ہیں۔
اس کی اس طرز عمل کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ وہ ریاست اور اس کی حیوانی تشدد کی مذمت کھبی بھی نہیں کرسکتے یہ اس کا سکوپ ہی نہیں یہ جرنلسٹ نہیں بلکہ ان کی تربیت بیرکوں میں ہوتی ہے یہی لوگ بلوچ قوم آزادی کی مسلح محاذ کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں لیکن یہ کھبی بھی حماس یا کشمیری مسلح تنظیموں کو جوابدہ نہیں کرسکتے بلکہ ان کی تمام تر سیاسی اخلاقی صحافتی اور سفارتی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہوتے ہیں یہ دوہراہ معیار کیوں یہ دوہری پالیسیاں کیوں؟ فلسطین اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آپ کا خون کھولتاہے لیکن بلوچستان پر نہیں غزہ پر گرتے ہوئے میزائل کے تو آپ مذمت کرتے ہیں لیکن بلوچ نسل کشی پر آپ کا آواز توانا کیوں نہیں ہوتا۔
آپ نے کھبی بھی انسانیت کے پیمانے پر جبر جارحیت ظلم اور تشدد کی تعریف نہیں کی آپ نے کھبی بھی قبضہ کی کائیناتی تعریف کرنے کی جرائت نہیں کی لیکن پاکستانی ریا ست کی فیس سیونگ کے لئے آپ بے ایمانی پر اتر آتے ہیں حقائق کو مسخ کرتے ہیں مبالغہ آرائی جھوٹ اور غلط بیانی یہ صحافت کے کونسے اقدار ہیں؟ جو پاکستان میں ایک ٹرینڈ بن چکاہے دنیا میں کئیں بھی صحافت اس طرح سیاہ کاریوں سے آلودہ نہیں جس طرح پاکستانی پریس بلوچ بارے دنیا کے آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتے ہیں غریدہ فاروقی کچھ آدھا ادھورا اگر آپ سچ بولتے تو
ہم سمجھتے کہ آپ واقعی ایک صحافیانہ رول ادا کررہی ہو لیکن آپ کی سوالات فیک رپورٹنگ کھوٹ بے ایمانی اورملاوٹ کی جو مکسچر ہے اس سے شک ہوتاہے کہ آپ کی اور ریاست کی بیانیہ میں کس حد تک قدر مشترک ہے۔
غریدہ فاروقی آپ کشمیر کازکو اپنی شہ رگ قرار دیتے ہیں وہاں آزادی کی جدوجہدکو اپنی سانسوں سے تعبیر کرتے ہوکشمیر کی آزادی پر آپ کی آئی ایس پی آر”ترانہ“کمپوز اور ریلیزکرتاہے لیکن بلوچ قوم کی آزادی کی جدوجہد کو آپ دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہیں جو آپ کی مفادات کو وارے کھاتی ہو وہاں تو آزاد ی کی تحریک صحیح! لیکن جس کی آزادی کو آپ نے سلب کی ہے وہ کیسے دہشت گرد ہوسکتے ہیں۔قبضہ کی کائناتی تعریف میں آپ بلوچ کے مجرم ہو اور آپ کو حق نہیں پہنچتا کہ آپ بلوچ قومی کازکے خلاف ڈس انفارمیشن کا حصہ بنے
غریدہ فارقی آپ بلوچ سے لاعلم نہیں آپ بلوچ سے واقف ہے۔ بلوچ کازسے واقف ہے بلوچستان آج کا نہیں بلوچستان صدیوں سے اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے سے نوآبادیاتی پیراڈائیم کا حصہ رہاہے لیکن بلوچ قوم نے ہردور میں نو آبادیاتی طاقتوں کے خلاف کسی تیسری درمیانی راستہ کا حصہ بننے کے بجائے مزاحمت کو اپنا نیوکلیس سمجھتاہے۔ ایک بلوچ مورخ اور دانشور کا ایک جملہ میں اس پیراگراف میں کوڈ کرتاہوں کہ ”بلوچ قوم نے کھبی بھی مذہب کے نام پر جنگ نہیں کیا بلکہ بلوچ قوم کی جنگ کی بنیاد نیشنلزم ہے“ بلوچ اپنی سرزمین شناخت اور آزادی پر کھبی بھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
بلوچ ہم مذہب ہونے کے ناطے کسی حیوانی نظام کا حصہ نہیں بنا بلوچ قوم کے اپنے وژن اور ترجیحات ہیں اپنے اقدار تہذیب ثقافت ہے جو ہزاروں سال کی ہے بلوچ ناقا بل تسخیر ہے اسے آپ جیت نہیں سکتے یہ زیادہ دیر تر پاکستانی کی نوآبادی نہیں بنے گا بلوچستان کو پاکستان بننے کے خواب دیکھنا بند کردو! آج کا بلوچ آڑہتیوں اور دلالوں کو جانتاہے بلوچ آپ سے قائل نہیں ہوسکتا،بلوچ سمجھتاہے کہ پیچھے ہٹنا جبر کو دعوت دیناہے،بلوچ کو اپنی جدوجہد کا پورایقین اور اعتماد ہے آپ جتنی دہشت، طاقت، انتشار اور بدنظمی پھیلائیں گے بلوچ آپ کے خلاف اس شدت سے کھڑی ہوگی آپ کے ہنستے مسکراتے چہرے کا نقاب نوچھ کر آپ کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے لائے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔