بلوچ نسل کشی کے خلاف لانگ مارچ کے شرکا پر اسلام آباد میں تشدد، گرفتاریوں کے خلاف بلوچستان بھر میں دوسرے روز احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے۔ آج مختلف شہروں میں پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن رہی جبکہ احتجاجی دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے۔
کراچی سے متصل بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں لوگوں کی بڑی تعداد نے کراچی کو بلوچستان سے ملانے والی شاہراہ کو احتجاجاً بند کردیا جس کے سبب ٹریفک کی روانی معطل ہوگئی۔ اس دوران شہر میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی۔
مظاہرین جن میں خواتین شامل تھی، اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھا کر احتجاج کرتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کررہے تھے۔
رکھنی ،بارکھان کے مقام پر لوگوں کی بڑی تعداد نے بلوچستان کو پنجاب سے ملانے والی مرکزی شاہراہ کو ٹریفک کے لئے بند کردیا۔
دارالحکومت کوئٹہ، خضدار، پنجگور، تربت، گوادر، خاران، نوشکی، دالبندین، واشک، مند، وڈھ، سوراب، ژوب سمیت دیگر شہروں میں لوگوں کی بڑی تعداد نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا ، اس دوران سڑکوں پر ٹریفک سمیت کاروباری سرگرمیوں میں معطل رہی۔
بلوچستان بھر سے مظاہرین نے اسلام آباد میں بلوچ خواتین پر تشدد، گرفتاریوں پر شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ریاست نے بلوچ ماؤں پر بدترین تشدد کرکے یہ پیغام دیا کہ بلوچ اس ملک کے شہری نہیں ۔
انہوں نے کہاکہ ہمارے بوڑھی مائیں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے سراپا احتجاج تھیں کہ ریاست نے انہیں انصاف کے بجائے تشدد کا نشانہ بنایا جو کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔
مظاہرین نے کہاکہ آج بلوچستان بھر میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ سراپا احتجاج ہیں اور یہی پیغام دے رہے ہیں کہ ریاست بلوچ نفرت اور نسل کشی کا سلسلہ روکے۔
وہاں ساحلی شہر گوادر میں مقامی ماہیگروں نے ساحل سمندر میں گشتیوں پر سوار ہوکر ریلی نکالی اور بلوچ نسل کشی کے خلاف نعرہ بازی کی۔