نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ پچھلے ایک مہینے سے بلوچ نسل کشی اور جبری طور پر لاپتہ افراد کیلئے ایک تحریک چلائی جا رہی ہے، یہ تحریک بلوچستان کے شہر شہر سے ہوتے ہوئے جب اسلام آباد پہنچ گئی تو وہاں پر کالونائزر اور حاکم نے اپنی رنگ دکھاتے ہوئے لانگ مارچ میں شریک عورتوں، بچوں اور بلوچ نوجوانوں پر تشدد کی پالیسی اپناتے ہوئے شرکاء پر آنسو گیس شیلنگ اور واٹر کینن کا استعمال کیے، جس سے کہیں لوگوں زخمی اور بے ہوش ہوگئے۔
ترجمان نے کہا کہ اسلام آباد انتظامیہ اور وفاقی حکومت نے متشدد اور متعصبانہ راہ اپناتے ہوئے عورتوں سمیت 280 سے زائد بلوچ نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا، ان گرفتار افراد میں ہماری اپنی پارٹی کے بارکھان اور شال زون کے ممبران بھی شامل ہیں۔ اسی طرح گرفتاری کے بعد بھی پوری رات اسلام آباد کے اندر بلوچ طلبہ کے رہائشی جگہوں پر چھاپے مارتے رہے. یہ رویے حاکم اور محکوم کے رشتے کو واضح کرتی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ اسی طرح آج جب ریاستی ظلم و جبر کے خلاف بلوچستان ہر شہر میں احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئی تو ڈیرہ غازی میں ایک دفعہ پھر ریاستی انتظامیہ متشدد ہوکر مظاہرین پر تشدد کرکے انہیں گرفتار کیا گیا، اس سے عیاں ہوتی ہے ریاست بلوچ کے ساتھ ہمیشہ حاکم اور محکوم کا رشتہ برقرار رکھ کر بلوچستان کو ایک کالونی کے طور پر چلانا چاہتی ہے، اور ان کے ساہل و ساحل کو لوٹنا چاہتی ہے، جب بھی بلوچ قوم اس ظلم جبر اور لوٹ ماری کے خلاف احتجاج کرے یا گھروں سے باہر نکلتے ہیں تو ریاستی انتظامیہ تشدد کی راہ اپناتی ہے لیکن ایک بات یاد رکھنا چاہیے کہ بلوچ قوم حاکم اور محکوم کے رشتے اور بلوچستان کو ایک کالونی کے طور پر قبول نہیں کرتی، لہذا ریاست کو چاہیے کہ اب بھی وقت ہے کہ وہ ہوش و حواس سے کام لے کر بلوچستان کے مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کرے، بصورت دیگر اس کے بھیانک نتائج برآمد ہونگے۔