بلوچ لانگ مارچ شُرکاء پر ریاستی جبر
ٹی بی پی اداریہ
پاکستان کے ارباب اقتدار دو دہائیوں سے تواتر کے ساتھ گردان کررہے ہیں کہ بلوچ پاکستان کے آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کی جنگ لڑیں لیکن بلوچستان میں ریاستی جبر کے خلاف اٹھی سیاسی ابھار جو پاکستان کے حکمرانوں سے جبری گمشدہ افراد کی بازیابی اور بلوچ نسل کشی کے خاتمے کی مانگ کررہی ہے، ریاستی ادارے اُن کی تحریک کو طاقت کے زور پر ختم کرنے کی کوششوں میں ہیں۔
بلوچ انسرجنسی کی انسداد کے لئے بنائے گئے پالیسیوں سے بلوچستان کا ہر کوچہ متاثر ہے اور جعلی پولیس مقابلوں میں بالاچ کی ہلاکت کے بعد تربت میں ایک احتجاج نے جنم لیا ،جس نے جلد پورے بلوچستان کو اپنے لپیٹ میں لے لیا اور تحریک کی شکل اختیار کرلی جس نے لانگ مارچ کی صورت میں پنجگور، خضدار، کوئٹہ، کوہلو، رکھنی، ڈیرہ غازی خان، تونسہ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں احتجاج کرتے ہوئے شہر اقتدار اسلام آباد کا رُخ کیا کہ وہاں انہیں انصاف مل سکے۔
بلوچ نسل کوشی کے خلاف لانگ مارچ شُرکا کے اسلام آباد پہنچنے پر اُنہیں شہر میں داخل ہونے سے روک دیا گیا اور بلوچ خواتین ؤ طلباء کوگرفتار کیا گیا،انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، بزور قوت انہیں شہر بدر کرنے کی کوششیں کی گئی اور اُن کے رہنما ماہ رنگ کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
آئینی اور پرُامن جدوجہد کو جبر سے ختم کرنے کی پالیسیاں ریاستی حکمرانوں کے دعوؤں سے متضاد ہیں۔ پاکستان کے حکمران اقتدار حاصل کرنے سے پہلے بلوچ قوم سے معافی مانگتے ہیں اور اُن کے حقوق دینے کا وعدہ کرتے ہیں لیکن بلوچ بیٹیوں اور ماؤں کو احتجاج کا حق دینے کا بھی قائل نہیں ہیں اور اُن کے جائز مطالبات پر لب کشائی سے بھی قاصر ہیں۔
بلوچ قومی آوازوں کو تشدد اور جبر سے خاموش کرانا ممکن نہیں ہے۔ بلوچ نسل کشی اور ظلم ؤ جبر کے خلاف بلوچستان کا طول ؤ عرض خوف کی دیواریں توڑ کر سراپا احتجاج ہے۔ اگر ریاست نے بلوچستان میں جبر ؤ تشدد کا سلسلہ بند نہیں کیا تو ریاستی پالیسیوں کے خلاف سیاسی مزاحمت اسی شدت کے ساتھ جاری رہے گی۔