بلوچ قوم کی عظیم مائیں
تحریر: شاندل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ماں جیسے لفظ کو سنتے ہوئے ہمارے ذہن میں جو معنی و مفہوم تَبادُر کرآتے ہیں ان میں عشق،خلوص، یکتائی، مہر و محبت ہیں۔ ایک قلمکار نے لکھا تھا کہ “خدا نے عورت کو اسلئے خلق کیا تاکہ وہ ماں، بہن اور عشق بن سکے” اور ہم سب کی زندگیوں میں یہی افراد ہیں جو ہمیں عشق کے معنی و مفہوم سے آشنا کرواتے ہیں،ہمیں مہر و محبت سے بلد کراتے ہیں۔
ماں کے کردار اور اسکی شخصیت نے ہماری زندگیوں کو اسقدر اپنے گھیرے میں لیا ہواہے کہ ماں کا نام سنتے ہی فی الفور ذہن ایک خارجی مصداق کی طرف لپکتا ھے۔ اسی وجہ سے جب ھم لفظِ ماں ادا کرتے ہیں تو گویا یہ لفظ نہیں بلکہ حقیقی ماں ہی ہے کہ جسکی نسبت موجود احساسات کی ترجمانی کیلئے ہم نے لفظِ ماں کا اختراع کیا۔
طُولِ تاریخ میں کتنی ہی تبدیلیاں وجود میں آئیں، کتنے ہی معاشرے وجود میں آئے اور کتنے ہی اپنے انجام کو پہنچے لیکن ان تمام جامعۂ بشری میں ہم چند مشترک اور عمومی رشتوں اور بندھن کو دیکھیں تو وہاں پر بھی ہمیں یہ بندھن نظر آتا ھے ۔
شاید اسی وجہ سے یہ قضیہ تشکیل پایا کہ ماں کسی خاص فرد کی نہیں ہوتی بلکہ وہ ہر فرد کی ماں ہوتی ہے۔
میکسم گورکی نے اپنے ناول “ماں” میں جسطرح سے ماں کے کردار، اسکے وجود کی تجسیم کی ہے وہ واقعی اعجاز کن ھے۔ گورکی نے ماں کے وجود اور کردار کو من و عن قرطاس پر اتارا ھے، گورکی نے وہی کچھ لکھا جو اس نے بچپن سے دیکھا، کیونکہ ماں وہ شخصیت ہے کہ جسکا ہم اپنی روزمرہ زندگی میں مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن مادی دنیا کی یہی بدبختی ہے کہ جتنا ہم اپنے افعال میں راسخ ہوتے ہیں اتنے ہی ان افعال کی روح سے غافل بھی ہوتے ہیں۔ ہم میں سے ہر کسی کی ماں ہے لیکن ہم نے کبھی اس ماں کے وجود، شخصیت، کردار پر ہلکے سے جھانکا بھی نہیں، اور ناہی اس پہلو سے دیکھا جس پہلو سے اگر ہم دیکھتے تو آج ہماری زندگیاں تبدیل ہو چکی ہوتیں۔
بلوچ قومی تحریک اقوامِ عالَم کی ان تحاریک میں سے ایک ہے کہ جہاں پر ہمیں ماوؤں کے کردار مثلِ آب چھلکتے نظر آتے ہیں۔ جسطرح بالشویک انقلاب لانے میں عورتوں نے اپنے کردار ادا کئے کہ جن کو گورکی نے دنیا کے سامنے روشناس کرایا۔ بہ مثل ایسے ہی کردار آج ہمیں بلوچ قومی تحریک میں بھی کثیر تعداد میں نظر آتے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ روسیوں کو گورکی ملا کہ جس نے ان کرداروں کو تراش خراش کرکے کتبی جسم عطا کیا،اور بلوچ قوم ایسے گورکی کی راہ دیکھ رہی ہے جو آ کےایسے ہی کرداروں کو قلم و قرطاس کے سپرد کرے۔
آج اگر دنیا میں تأنیثیت (فیمنیزم) کا بول بالا ھے اور ہر معاشرہ اپنے تئیں تانیثیت کی طرف رجوع کررہا ہے تو ایسے میں بلوچ معاشرے کو کسی باہر کے فیمنیزم کی طرف مراجعت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ بلوچ کے لئے تانیثیت کی درخشاں مثالیں یہی ہماری مائیں اور بہنیں ہیں کہ جو اس قومی تحریک میں ہر مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں، ہر بہن اپنے بھائی کے ساتھ، ہر ماں اپنے فرزند کے ساتھ اس ریاستی جبرو بربریت کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار بن چکی ہے۔ اس سے بالاتر عورت اور مرد کی برابری کیا ہوگی کہ اسوقت دونوں کے ھَمّ(ہمت) و غم ایک ہیں، مقصد اور منزل بھی ایک ہے اور اس منزل کی طرف جانے والا راستہ بھی ایک ھے اور اس راہ کے راہرَو بھی ساتھ ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس اجتماع سے بڑھ کر زیباتر اور حسین تر کوئی اجتماع نہیں ہے ۔
کسی فرد نے ایک انقلابی رہبر سے پوچھا تھاکہ تم جس انقلاب کی بات کرتے ہو، وہ انقلاب تم کیسے لاؤ گے، اور کن لوگوں کی معاونت سے لاؤ گے ؟ تو اسوقت اس انقلابی نے جواب دیا کہ میرے انقلابی پیروکار ابھی اپنی ماوؤں کی جھولیوں میں ہیں، ابھی وہ تربیت پارہے ہیں۔ جسطرح سے دنیاوی تربیت کیلئے ماں کو اولیت حاصل ہے بعینه اپنی اولاد کو انقلابی، جہدکار اور مزاحمت کار بنانے میں اسی مادری تربیت کو اولیت حاصل ہے۔
آج جہاں پر بھی مظاہرات ہو رہے ہیں، زھرشانی کا قیام ہو رہا ہے وہاں پر یہ مائیں ہیں جو چند سال کے بچوں کو اپنے کندھوں پر سوار کرکے گھر سے نکل رہی ہیں،اور انکو عملی درسِ مزاحمت دے رہی ہیں، انکو بچپن سے ہی اس راستے پر لاکر کھڑا کر رہی ہیں۔ تو دوسری طرف ان سے بھی پہلے کتنی ہی ایسی مائیں ہیں کہ جنہوں نے اسی راہ میں اپنے بیٹے قربان کیے، خود انکو رخصت کیا اور آج تک اپنے اسی عھد پر قائم بھی ہیں۔
یہ وہ مائیں ہیں کہ جو حالات کی ُتندی سے گھبرائیں نہیں اور ناہی حالات کے ڈر سے خانہ نشین ہو گئیں بلکہ ایک دوسرے کے ہی دست و بازو بن گئیں، اور اسی بل بوتے پر استقامت کا یہ سفر جاری رکھا۔
آج اگر تربت میں شہید بالاچ کی ماں اور بہن مزاحمت کا استعارہ ہیں، تو ایسے ہی ذاکر جان کی لُمہ بھی مزاحمت کا ستون ہیں، اور ایسے ہی راشد حسین کی ماں بھی جدوجہد کی داستان ہیں۔ اور کتنی ہی گمنام مائیں ہیں کہ جنہوں نے اپنے جگر گوشے اس قوم کے لئے قربان کیے ہیں۔ یہ وہ قربانی اور خلوص کا کلچر ہے جو ہماری ماوؤں نے ہمیں عطا کیا ہے کہ جسکی بنیاد ریحان جان کی لُمہ نے رکھی۔
مبادا یہ بھی مت سوچیں کہ آج اگر راشد کی لُمہ، بالاچ کی ماں اور ذاکر جان کی لُمہ زھرشانی میں بیٹھی ہوئی ہیں تو وہ صرف اپنے اور اپنے بیٹوں کے لئے بیٹھی ہوئی ہیں، ہرگز ایسا نہیں ہیں بلکہ یہ مائیں ایک اور ماں کا غم لئے بیٹھی ہیں جو ھم سب کی ماں ھے، جوکہ ہماری اصل و مرَجَع ھے کہ جسکی طرف ھم سب نے پلٹ کرجانا ہے اور وہ ماں بلوچستان ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔