بلوچ قوم پاکستانی انتخابی ڈرامے میں حصہ نہ لیں۔ براس

683

بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) میں شامل اتحادی تنظیمیں قابض ملک پاکستان کی طرف سے مقبوضہ بلوچستان میں نام نہاد انتخابات کو مکمل مسترد کرتے ہیں اور اس انتخابی ڈھونگ کو بلوچستان پر پاکستان کے جبری قبضہ کو طول دینے کا ایک حربہ سمجھتے ہیں۔بلوچ آزادی پسند قوتیں قابض کے دوسرے پروپگنڈہ حربوں کی طرح اس نام نہاد انتخابی حربے کا بھی بلوچ قوم کی تعاون سے بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے اسے ناکام بنادیں گے۔ بلوچ قوم کو پیغام دیتے ہیں کہ اس بار بھی پاکستانی انتخابی عمل کا اسی طرح مکمل بائیکاٹ کریں جس طرح سنہ 2013 اور 2018 میں انتخابات کا بائیکاٹ کرکے قبضہ گیری پر جمہوریت کا ٹھپہ لگانے کی پاکستان کی کوشش کو ناکامی سے دوچار کیا گیا تھا۔”

یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی مقبوضہ سرزمین پر قابض ریاست کی طرف سے نام نہاد انتخابات کا ڈھونگ دراصل محکوم قوم کی طرف سے اس کی ناجائز قبضہ گیریت کیلئے قبولیت کا تاثر قائم کرنے کا حربہ ہوتی ہے۔ بلوچ سرزمین پر قابض کے انتخابات میں حصہ لینا نہ صرف بلوچ قوم کی ہزاروں سالہ تاریخ کی نفی ہوگی بلکہ پاکستانی قبضہ کو مزید تقویت و طوالت فراہم کرنے کا وسیلہ بھی بنےگی۔
بلوچ قوم نے گذشتہ دو نام نہاد انتخابات کی بائیکاٹ کے ذریعے تحریک آزادی کی جس طرح حمایت کیا تھا اس سے عالمی سطح پر آزاد بلوچستان کے مطالبے کو توجہ اور تقویت ملا تھا۔ بلوچ راجی آجوائی سنگر بلوچ قوم سے ایک بار پھر اپیل کرتا ہے کہ وہ پاکستانی نام نہاد الیکشن کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اپنی ہزاروں سال کی تاریخ، تمدن، شناخت اور قومی آزاد ریاست کی تشکیل کی بحالی کی قومی کوششوں کی حمایت کریں۔”

سچ تو یہ ہے کہ مقبوضہ بلوچستان میں قابض پاکستانی فوج براہ راست حکومت چلارہا ہے اور جن لوگوں کو بلوچ قوم کے نمائندے کے طور پر سامنے لانے کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے ان کا کام محض بلوچ نسل کشی کے اجازت ناموں پر ٹھپہ لگانا ہوتا ہے تاکہ اقوام عالم کے سامنے یہ ظاہر کیا جائے کہ مقبوضہ بلوچستان کا مالک بلوچ قوم قابض پاکستان کو تسلیم کرکے اسکے انتخابی عمل کا حصہ بن رہی ہے۔ بلوچ قوم کسی کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ بلوچ نمائندگی کے نام پر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر نسل کشی، استحصال اور قبضہ گیریت کے عمل میں پاکستان کی معاونت و سہولتکاری کریں۔”

یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ”آزاد اقوام کا اپنے ممالک میں انتخابات کا انعقاد اور عوام کے ووٹ سے نمائندوں کا چناؤ ایک بہتر و خوبصورت عمل ہوتا ہے بلوچ راجی آجوئی سنگر جمہوریت کی آفاقی اہمیت پر مکمل یقین رکھتی ہے لیکن بلوچستان جیسے مقبوضہ سرزمین پر نام نہاد انتخابات کا ڈرامہ جمہوریت کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے کیونکہ الیکشن کے نام پر قابض پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے اپنے ایسے سہولت کاروں کو سلیکٹ کرتے ہیں جو نہ صرف بلوچستان کے ساحل و وسائل کی لوٹ کھسوٹ، بلوچ قوم کی سماجی، معاشی و سیاسی استحصال میں سہولتکاری فراہم کرنے پر راضی ہوتے ہیں بلکہ بلوچ نسل کشی میں بھی فوج اور خفیہ اداروں کا آلہ کار بنتے ہیں اور ان کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنے آقاؤں کی بلوچ مخالف تمام اقدامات پر بلا چوں چرا قانون و جمہوریت کا ٹھپہ لگا لیتے ہی ۔”

باکستان اور اس کی جمہوریت کا کھوکھلاپن پوری دنیا کو معلوم ہے اور مقبوضہ بلوچستان میں تو پاکستان کا استعماری چہرہ بھی بلوچ تحریک آزادی نے پوری طرح بے نقاب کردیا ہے تاہم پاکستان اپنا کھویا ہوا استعماری گرفت بحال کرنے کے لئے بہرصورت بلوچستان میں نام نہاد انتخابات کا انعقاد کرنا چاہتی ہے تاکہ دنیا کو یہ باور کرا سکے کہ بلوچ قوم پاکستانی جبری قبضے کو تسلیم کرکے اسکے زیرتسلط رہتے ہوئے خوشی سے اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں جو کہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ بلوچستان میں ان نام نہاد انتخابات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے پاکستانی قابض فوج سر توڑ کوششوں میں مصروف عمل ہے پورے بلوچستان میں قابض فوج کی تعداد اور موبلائزیشن میں کئی گنا اضافہ کیا جاچکا ہے”
بلوچ قوم قابض پاکستان کے نام نہاد انتخابات کے حقیقی و جمہوری ہونے کے جھوٹے دعووں کی حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہے اس غیرفطری ریاست کے ماضی میں جھانکنے سے حقیقت از خود آشکار ہوجاتا ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ اور خان عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی مقبوضہ بنگال اور مقبوضہ بلوچستان و پختون خواہ میں اکثریت حاصل کئے تھے۔ بنگالی عوام پاکستانی پارلیمان میں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود نہ صرف اقتدار حاصل نہیں کرپائے بلکہ کامیابی کی پاداش میں بنگالی قوم کی سنگین نسل کشی کی گئی۔ جبکہ بنگلادیش کی آزادی کے بعد پاکستان نے اسی عمل کو دہراتے ہوئے مقبوضہ بلوچستان و پختون خواہ میں نیپ کی منتخب حکومتوں کو برطرف کرکے نہ صرف اس کی لیڈروں پر جھوٹے مقدمات بنائے بلکہ بلوچ قوم کے خلاف ایک طویل فوجی آپریشن شروع کردیا گیا۔ بنگلادیش کی تاریخ ہمارے لیے ایک واضح مثال ہے کہ پاکستانی انتخابات کے ذریعے قومی آزادی کجا بنیادی انسانی حقوق تک حاصل نہیں کیئے جاسکتے ہیں۔

اس لئے براس آج ایک بار پھر بلوچ قوم کو باور کراتا ہے کہ بلوچستان میں بلوچ قومی آزادی کی جنگ بلوچ عوام کے آزاد و خوشحال مستقبل کی جنگ ہے جو باشعور بلوچ قوم کی مدد و تعاون اور قربانیوں کے بدولت اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ اس جنگ کی کامیابی کا انحصار درست سمت میں بلوچ قوم کی بروقت فیصلوں پر منحصر ہے۔ قابض پاکستان کے نام نہاد انتخابات سے ہمارے کسی درد کا مداوا ممکن نہیں بلکہ اس سے صرف ہماری قومی غلامی کو مزید طول ملے گی۔ بلوچ قوم، بلوچ راجی آجوائی سنگر کے بائیکاٹ کے اپیل پر عمل پیرا ہوتے ہوئے جبری قبضے کو کمزور اور تحریک آزادی کو مزید مضبوط کرنے میں اپنا قومی کردار ادا کریں۔ براس میں شامل اتحادی تنظیمیں اپنی تاریخی فرض سے بخوبی واقف ہیں اور اسے عالمی اصولوں کے مطابق نبھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم نام نہاد پاکستانی انتخابات میں کسی بھی سطح پر حصہ داری کرنے والوں کو خبردار کرتےہیں کہ وہ اس عمل سے دور رہیں۔