بلوچ سیاست اور ٹویٹر ۔ مش یار بلوچ

303

بلوچ سیاست اور ٹویٹر 

تحریر: مش یار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سیاست کا میڈیا سے تعلق ایسا ہے جیسا انسان کا آکسیجن سے ہے۔اسپارٹا اور ایتھنز کے جنگ سے لیکر بلوچستان کے تربت میں ہونے والے دھرنے تک ہر سیاسی اقدام کے احوال کو ایک خطے سے دوسرے خطے تک پہنچانے میں اخبار(پرنٹ میڈیا) سے لیکر ٹویٹر (سوشل میڈیا) تک کسی نہ کسی صورت اہم کردار ادا کیا ہے۔ میڈیا کے اسی اہمیت کے پیش نظر اس کو ریاست کا پانچواں ستون بھی کہتے ہیں اور آج اکیسویں صدی میں ریاست سے لیکر نن اسٹیٹ ایکٹرز جس طرح اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیےجنگ میں گولی اور بارود پر خرچ کرتے ہیں بلکل اسی طرح میڈیا پر بھی خرچ کرتے ہیں۔جبکہ میڈیا صرف خبر کو ایک جگہ سے دوسرے جگہ تک پہنچانے کا نام نہیں ہے بلکہ میڈیا عوامی رائے پر اثرانداز ہونا، عوامی رویوں کی تشکیل میں کردار ادا کرنا، فرد کی فیصلہ سازی میں اثر انداز ہونا، کسی مخصوص سماجی مسائل کے حق میں یا مخالفت میں رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ایجنڈا سیٹنگ تھیوری” کمیونیکیشن یا میڈیا تھیوریز میں سب سے پر اثر تھیوری ہے جسے Maxwell McCombs and Donald Shaw نے 1972 میں پیش کیا تھا۔ اس تھیوری کے مطابق میڈیا صرف معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنے کا کام نہیں کرتا، بلکہ یہ افراد کی ذہین کو بھی اثرانداز  کرتا ہے اور کسی مخصوص جگہ سے آنے والے بیانیے کو اہم تسلیم کرانے میں کردار ادا کرتا ہے۔ یہ تھیوری کہتا ہے کہ میڈیا کی توجہ جس مسئلے پر ہوتی ہے، وہ مسئلہ عوام کے لئے بھی اہم بن جاتا ہے۔ اب اس تھیوری کی روح سے بلوچ سیاست میں میڈیا کے کردار کو سمجھنے کی کوشش کریں گے، ایک جانب بلوچ سرزمین پاکستانی قبضہ اور دوسری جانب بلوچ مزاحمتی تحریک ہے، پاکستان  شروع دن سے میڈیا کو ایک منظم ٹول کے طور پر بلوچ قومی آزادی کے تحریک کے خلاف استعمال کررہا ہے، وہ نہ صرف بلوچ تحریک کے حوالے سے عالمی برادری کو گمراہ کرنے کو کوشش کررہا ہے بلکہ اس سے زیادہ وہ میڈیا کو عام بلوچ کی ذہین کو اثر انداز کرنے کے لیے استعمال کررہا ہے ۔ جبکہ وہ بلوچستان میں بلوچ نسل کشی جیسے سنگین انسانی مسئلے کو عام عوام کے لیے غیر اہم بنانے کے لیے پنجاب کے سطحی مسائل کو میڈیا کا زینت بناتا ہے اور میڈیا کے ذریعے ضروری مسائل کو غیر ضروری اور غیر ضروری مسائل کو ضروری مسائل بنانے کے لیے اپنی حتیٰ الواسع کوشش کررہا ہے ۔مثال کے طور پر تربت میں  قابض پاکستان کے سیکورٹی ادارے  جبری طور پر گمشدہ  چار  بلوچ نوجوانوں کو گاڈی میں سوار کرکے اس گاڈی کو بمب سے اڑا دیتے ہیں جس سے جبری طور پر گمشدہ چاروں بلوچ نوجوان  کی جسم ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی ہے، یہ کالونیل بربریت کی سنگین مثال ہے لیکن جب آپ مین اسٹریم پاکستانی میڈیا میں دیکھتے ہو تو وہاں آپ کو یہ چاروں بلوچ نوجوانوں کی جسم کے ٹکڑوں کی بجائے لاہور میں ٹریفک سنگل توڑنے کی خبر ملتی ہے اور اسی طرح عوامی ذہین کواثر انداز کرنے کے لیے تربت دھرنے کو نام نہاد روایاتی بیانیہ ” ملک کے خلاف سازش” قرار دینا اور جبری گمشدگی کے دوران ماروائے عدالت قتل ہونے والا بلوچ نوجوان بالاچ بلوچ کو دہشتگرد قرار دینا اور تربت دھرنے میں شامل سیاسی کارکنان کے خلاف اپنے میڈیا ٹرول کے ذریعے پروپیگنڈہ کرنا اور ہراس کرنا شامل ہے ۔

جبکہ دوسری جانب بلوچ کے پاس کوئی متبادل میڈیا موجود نہیں جو اس پوری ریاست مشینری کا مقابلہ کرسکے لیکن سوشل میڈیا    کسی حد تک مین اسٹریم میڈیا کے متبادل کے طور پر کام کررہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ایجاد نے اس کرہ ارض کے ہر ایک فرد کے لیے اپنی آواز، اپنی بیانیہ،اپنے مسائل کو دنیا کے کسی بھی کونے تک پہنچانے کے لیے ایک چینل کی تشکیل کی ہے۔ دنیا کے وہ تمام سیاسی قوت جو ایک ریاست یا طاقتور گروپ کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں وہ سوشل میڈیا کو ریاستی میڈیا یا مین اسٹریم میڈیا کو متبادل میڈیا کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ از خود بلوچ قومی آزادی کے تحریک سے منسلک ادارے اس میڈیم کے ایجاد سے کسی نہ کسی حد اس کوشش میں لگے ہوئے کہ سوشل میڈیا کو قابض پاکستانی میڈیا کے مقابلے میں متبادل میڈیا کے طور پر استعمال کیا جائے اور ایک حد تک اس کا بہتر استعمال بھی کیا جارہا ہے لیکن  بلوچ سیاست میں اس میڈیم کے متعارف ہونے سے ہی اس کے بہتر استعمال کے ساتھ اس کا “منفی استعمال” بھی جاری ہے اور اس کے منفی استعمال کے سبب بلوچ سیاست میں جس طرح کے رویے جنم لے رہے ہیں اگر ان کی بیخ کنی نہیں گئی تو شاید آنے والے وقتوں میں بلوچ آزادی پسند جماعتیں اس کا خمیازہ بھگتے گے۔

بلوچ سیاسی سرکل میں ویسے تو میڈیا کے منفی استعمال کے متعدد نقاط ہونگے لیکن آج اس تحریر میں صرف ایک نقطہ “ہر مدعے کو سوشل میڈیا کا زینت بنانا” پر بحث کریں گے۔بلوچ سیاست میں یہ روایات ویسے عرصہ دراز سے چلتا آرہا ہے کہ ہر ایک مدعے کو سوشل میڈیا میں لاکر بحث کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ دو تین سالوں میں اس روایات نے حد سے زیادہ منفی صورت اختیار کی ہے۔ ویسے تو ایسے واقعات کی فہرست بہت طویل ہے لیکن اس تحریر میں صرف حالیہ تربت دھرنے کو لیتے ہیں، جب تربت دھرنے کے انتظامیہ نے دھرنے کو تربت سے شال اور اسلام آباد تک مارچ کی صورت منتقل کرنے کا اعلان کیا تو چند ایک نے سوشل میڈیا کے ذریعے مخالفت کا سلسلہ شروع کیا۔ یہاں اس بات پر توجہ دلانا ضروری ہے کہ اس فیصلے کے مخالفت کرنے والے یورپ میں مقیم بلوچ آزادی پسند سیاسی و انسانی حقوق کے کارکن ہے جن میں ایک بلوچ آزادی پسند سیاسی جماعت کی اہم عہدیدار بھی شامل ہے۔ اس بات سے قطعہ نظر کے دھرنہ انتظامیہ کی مارچ کا فیصلہ سہی ہے یا غلط، سوال یہ ہے کہ آیا وہ لوگ جو اس فیصلے کی مخالفت کررہے ہیں وہ سوشل میڈیا کو واحد پلیٹ فارم سمجھ کر اپنا مدعا رکھ رہےہیں ؟ یا وہ اس جدید کمیونیکشن کے زمانے میں دھرنہ انتظامیہ تک رسائی حاصل نہیں کرپارہے ہیں؟ یا معاملہ کچھ اور ہے ؟  اگر معاملہ کچھ اور ہے تو وہ سوشل میڈیا میں اپنا مدعا  رکھ کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ میرے ناقص رائے میں سوشل میڈیا کسی بھی سوشل موومنٹ کے اندورونی مسائل کو حل کرنے کے بجائے مزید بگھاڑ دیتی ہے ۔ اب ہم اس  کو تربت  لانگ مارچ کے مخالفت کرنے والے مدعے کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرے گے،  جیسا کہ چند ایک لوگوں نے  تربت ٹو اسلام آباد لانگ مارچ کی سوشل میڈیا میں مخالفت شروع کردی، (یہاں اس بات ذکر کرنا نہایت ہی ضروری ہے کہ وہ لوگ اس فیصلے کا مخالفت کررہے ہیں وہ ان کا سیاسی حق ہے یہ امر ضروری نہیں ہے کہ تمام لوگ اس فیصلے کی حمایت کرے جس طرح حمایت کرنے والے قابل احترام ہوگے بلکل اسی طرح مخالفت کرنے والے بھی قابل احترام ہونگے ) لانگ مارچ کے مخالفت سے سوشل میڈیا میں ایک مبہم بحث کا آغاز ہوگیا اور اس بحث  میں تربت دھرنے کے زمینی حقائق سے واقف اور نہ واقف تمام لوگ الجھ گئے، کوئی حمایت میں تو کوئی مخالفت میں، کسی نے طنز کردی تو کسی نے گالم گلوچ اور اسی طرح بحث بگڑتی چلی گئی اور ایک انتہائی منفی صورت اختیار کرگئی۔ اب اس صورتحال میں سوشل میڈیا کے ذریعے مخالفت کرنے والوں سے یہ سوال بنتا ہے کہ کیا آپ نے سوشل میڈیا کے ذریعے مخالفت کرکے دھرنہ انتظامیہ تک اپنی دلائل کو سہی طریقے سے پہنچانے میں کامیاب ہوگئے ہو؟ کیا جو بات آپ کہنا چاہتے تھے وہ سوشل میڈیا کے اس مبہم ماحول میں آپ کی پیغام واضح صورت میں  دھرنہ انتظامیہ تک پہنچی ہے ؟ کیا آپ کی سوشل میڈیا کے ذریعے مخالفت کرنے کے عمل سے عام عوام کی توجہ دھرنے کی کامیابی میں خرچ کرنے کے بجائے تقسیم نہیں ہوئی ہے ؟  کیا آپ اپنے رائے کوکسی اور طریقے سے دھرنہ انتظامیہ تک نہیں پہنچاسکتے تھے ؟ میرے نزدیک اگر آپ لوگ خود نیک نیتی سے ان سوالات پر غور کریں تو آپ لوگ اپنے آپ کو مارچ کو متنازعہ بنانے والوں کے صفوں میں پائے گے کیوں کہ آپ کے اس سوشل میڈیا کے بحث نے تربت دھرنے پر اپنے مثبت توانائی خرچ کرنے کے بجائے منفی توانائی خرچ کی ہے ۔

میڈیا کے اہمیت اور قابض پاکستانی میڈیا کے کردار پر درج بالا میں ہم بحث کرچکے ہیں کہ وہ کس طرح بلوچ تحریک اور سماج کے خلاف کام کررہا ہےاور کس طرح قابض پاکستان میڈیا کے ذریعے عام بلوچ کے ذہین پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہا ہے ، اب صورتحال میں سوشل میڈیا بلوچ قومی تحریک کے لیے مین اسٹریم کے مقابلے میں ایک متبادل میڈیا کے طور پر کام کرسکتاہے لیکن اس کے ضروری ہے کہ بلوچ سیاسی کارکنان کو میڈیا بلخصوص سوشل میڈیا کے لیے اپنے رویے تبدیل کرنے ہونگے ، چونکہ ہم میڈیا کے حوالے سے موجود منفی رویوں میں سے صرف ایک نقطہ ” ہر مدعے کو سوشل میڈیا میں زیر بحث لانے “پر بحث کررہےہیں تو بلوچ سیاسی کارکنان وہ چاہے بلوچستان میں  موجود ہو یا بیرون ممالک انہیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ ہر مدعا سوشل میڈیا میں بحث کے لیے  نہیں ہوتا ہے، اگر آپ صرف اسی ایک تربت دھرنے کے مثال کو لے لیں اگر آپ اپنی انرجی لوگوں کو ایک فضول بحث میں الجھانے کے بجائے اس کی حمایت میں خرچ کرتے تو اس کی نتایج مختلف آتے  لیکن ہم آج تک اس بات کو سمجھنےسے قاصر ہے کہ سوشل میڈیا کو متبادل میڈیا کے طور پر اپنے حق میں استعمال کریں یا اپنے خلاف میں ؟ جبکہ دوسری جانب ہم سوشل میڈیا کو تنظیمی پلیٹ فارم یا اپنی ہم فکر گروہ سمجھ کر ہر بات دل پہ آجائے تو بغیر سوچھے سمجھے کہے دیتے ہیں اور اس کے نتائج شاید ہمارے ذات کو اثر انداز نہیں کررہے ہو لیکن بلوچ قومی تحریک یقینی طور پر اثرانداز ہورہا ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔