بلوچ تحریک میں خواتین کا کردار
تحریر: شیھک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ڈاکٹر ماہ رنگ، سمی دین، ڈاکٹرصبیحہ یہ چاند اور ستارے بلوچ قوم کی خوش قسمتی ہیں۔ ان تینون کی محنت و قربانیاں بلوچ قوم کے تاریخ میں گل بی بی، بانڈی، اور کریمہ، شاری، سمعیہ کے ساتھ لکھی جائیگی کہ انھوں نے اپنی قوم اور مادر وطن کی دفاع کے لئیے دشمن کے ساتھ جنگ لڑی آج یہ بھی وہی تاریخ دہرا رہے ہیں بلوچ قوم اپنے قوم کے عورتوں پہ فخر کرتی آرہی ہے کہ میرے قوم میں لیلا خالد جیسے سپوت موجود ہیں جو کہ مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔
حالیہ دنوں میں جو مارچ Baloch genoside کے خلاف جو کہ تربت میں شہید بالاچ مولابخش کو سی ٹی ڈی نامی فورسز کے ایک ادارے نےاپنے زیر حراست میں لیا اور کورٹ میں پیش کرنے کے بعد بھی فیک انکاونٹر میں شہیدکر دیا تو بالاچ مولابخش کے خون نے یہ تحریک جنم دیا۔
شہید بالاچ کے فیملی نے تربت میں دھرنا دیا اور یہی دھرنے نے مارچ کی شکل اختیار کر کے کوئٹہ کی طرف روانہ ہوا اس میں یہ بھی فیصلہ ہوا پورے بلوچستان سے جتنے لوگ لاپتہ ہیں ان کی رجسٹریشن ہوگی کیونکہ جتنے جو جبری گمشدہ افراد ہیں ان کے لواحقین کو خطرہ تھا کہ جو ریاست اپنے عدالتوں کو نہں مانتا لوگوں کو قتل کرتا ہے تو ان کو باحفاظت کیسے رکھے گا جو کہ یہ ریاست پہلے سے کرتا آرہا ہے۔ اسی طرح مارچ کے قافلے سمی دین اور گلزار دوست، ناکو مولابخش، ناکو معیار کی سربراہی میں چلتا رہا رجسٹریشن کرتا رہا اور ہر علاقے میں شاندار استقبال کے ساتھ کوئٹہ پہنچ گیا۔
راستے میں ریاستی گماشتوں نے ریاست کے کہنے کے مطابق جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کی لیکن ان لوگوں نے اچھے کمٹمنٹ کے ساتھ یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہمیں ہر حال میں جانا ہے کوئٹہ میں ایک دو دن بیٹھے اپنے احتجاج ریکارڈ کرکے یہ فیصلہ ہوا کہ سفر روکنا نہیں ہے آگے اسلام آباد کی طرف جانا ہے ریاست کے غیر فعال اداروں کے ساتھ ساتھ تمام انسان دوست اور پوری مہذب دنیا کے سامنے اس ریاست کے اصل چہرے کو بے نقاب کریں ، تو اسی جذبے کو بلوچستان کی بہادر بیٹی ڈاکٹر ماہ رنگ کی سربراہی میں آگے بڑھتا ہوا ہر علاقے میں ایک بہت بڑی عوامی طاقت کے ساتھ بڑھتا ہوا اور ایک اچھی عوامی پذیرائی حاصل کی اور اپنے قوم کے ساتھ ساتھ دیگر محکوم اور مظلوم قوموں کو ریاست کے ہر وہ ظلم و جبر کے بارے میں اگاہ کیا اور آگے بڑھتا گیا۔
ماہ رنگ چاندکے چودھویں رات کی طرح ہر جگہ اپنی روشنی پھیلاتا گیا اپنی ہمت وجرت بہادری کے ساتھ اسلام آباد میں پہنچا دشمن کے دروازے کو کٹھکٹھایا لیکن کیونکہ کہ یہ ایک بزدل اور غیر مہذب ریاست تھا وہ ان بچوں بوڑھوں، خواتین کو سامنا نہیں کرسکتا ان کو اپنے انٹری پوائنٹ پہ روکا آگے اسلام آباد پریس کلب تک جانے نہیں دیا تو ان تھکی ہوئی بوڑھی ماوں بچوں نے اتنے طویل سفر کے بعد روڈ پر دسمبر کے سرد رات میں بغیر کمبل اور تھکے سوئے اور ظالم ریاست کو یہ بھی احساس نہیں ہوئی اور بلوچ بچوں بوڑھوں سے خوفزدہ ہو کر ان پر لاٹھی برسائے جو کہ کسی بھی معاشرے میں باعث شرم کا مقام ہے ان بچوں بوڑھوں کو اپنے لاپتہ پیاروں کے تصاویر کے ساتھ اپنے جیلوں میں ڈال دیا ان کے کپڑے پھاڑ دیئے بغیر کھانے، کمبل اس سرد رات میں بھیڑ بکریوں کی طرح اپنے ٹارچر سیل میں بند کیا جو کہ قابل تشویش اور ناقابل فراموش ہے ۔
اسی دوران ریاست نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کو کسی صورت اپنے احتجاج ریکارڈ کرنے اظہار رائے کا حق نہ دینے کا فیصلہ کیا اور ایک بس تھانے کے سامنے کھڑا کرکے مظاہرین کو زور زبر دستی بزور طاقت بس میں بٹھانے کی کوشش کی کہ واپس کوئٹہ جائیں تاکہ یہاں ہمارے کالے کرتوت ظاہر نہ ہو لیکن ڈاکٹر ماہ رنگ کی بہادری اور جرت نے ان تمام حرکتوں کو بڑی جدوجہد کے بعد ناکام بنا دیا اور اپنے اصل مقصد کی طرف گامزن ہوکر پریس کلب تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور پوری دنیا کے سامنے ریاست کے ظلم جبر مظلوم قوموں پر ریاستی دہشت گردی کے بارے میں آگاہ کر رہی ہے ۔
ڈاکٹر ماہ رنگ سمییت پوری بلوچ قوم جانتی ہے کہ یہ فاشسٹ ریاست نے اپنی تاریخ میں نہ کسی کو انصاف دیا ہے اور نہ دے گااس کے سارے ادارے کھوکلے ہیں اب وقت ہے کہ مہذب دنیا اس انسانی المیے کو دیکھ کر آکر ان پر بات کرے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔