بلوچستان کی لیلیٰ خالد ۔ عزیز سنگھور

529

بلوچستان کی لیلیٰ خالد 

تحریر: عزیز سنگھور

دی بلوچستان پوسٹ

لیلیٰ خالد نے فلسطین کی تحریک آزادی کی مزاحمت پسند خاتون کے طور پردنیا میں اپنی ایک الگ شناخت بنائی۔ ارجنٹینا میں پیدا ہونے والے کیوبا کے انقلابی رہنما چی گویرا کے بعد دوسرے نمبر پر انقلابی رہنما کے طورپر دنیا کے سامنے آگئی۔ اپنی مزاحمت پسندی کی وجہ سے لیلیٰ خالد دنیا بھر کے مزاحمت پسند سوچ رکھنے والے لوگوں کی آنکھ کا تارا بن گئی۔ مقبولیت کا یہ حال تھا کہ یورپ میں رہنے والی لڑکیوں نے بھی اس کے بالوں کے اسٹائل سے لےکر اسکارف تک اپنانا شروع کردیا تھا۔

بلوچستان میں جاری تحریک میں بھی بے شمار بلوچ لڑکیوں نے لیلیٰ خالد کا کردار روپ دھارلیا۔ ان کرداروں کی لمبی فہرست ہے۔ تاہم میں آج بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں زیرحراست بالاچ بلوچ اور دیگر لاپتہ افراد کا فیک انکاؤنٹر کے خلاف جاری لانگ مارچ کی قیادت کرنے والی دو اہم کرداروں کا ذکر کررہا ہوں۔ جن میں جبری گمشدگی کے شکار بلوچ رہنما ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی اور وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کی سیکریٹری جنرل سمی دین بلوچ اور بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی (بساک) کی سابق چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ شامل ہیں۔ اس وقت یہ دونوں بلوچستان کی لیلیٰ خالد بن چکی ہیں۔ ان بچیوں نے اپنی صلاحیتوں کے ذریعے کیچ سے لیکر پنجگور، گریشہ، نال، خضدار، سوراب اور مستونگ کے عوام کو بیدار کردیا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان کے لانگ مارچ کے استقبال کے لئے سڑکوں پر آگئے۔

تئی لوگ بُن انت تئی شھر بُن انت پادا بلوچ پادا بلوچ! کے نعرے گونج رہے ہیں۔ لانگ مارچ کیچ سے ہوتا ہوا کوئٹہ پہنچ گیا ہے۔ ان دونوں بچیوں کی دھواں دار تقاریر نے بلوچستان کو جگا دیاہے۔ ان کے منہ سے نکلنے والی آواز (تقریر) ہر بزرگ، خواتین، مرد اور نوجوان کی دل کی آواز ہے۔ وہ ہر ماں کی لاپتہ اولاد کی بازیابی کا مطالبہ کررہی ہیں۔ ہر باپ کی اولاد کے قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی بات کررہی ہیں۔ کم عمری میں ان دو لڑکیوں نے اپنی شخصیت کو بولان کے پہاڑ کی طرح مضبوط ثابت کردیا۔ ان کی ذہانت و عقل کو داد دینا ہوگی۔ آخر ان بچیوں کو اتنا باشعور کس نے بنایا؟۔ ان کو سیاسی طورپر مضبوط کس نے کیا؟۔ ظاہری بات ہے ان کی سیاسی شعور حالات کی وجہ سے ہوئی ہے۔ یہ حالات کس نے پیدا کئے تھے؟۔ لازمی بات ہے۔ یہ حالات سرکار کی پیدا کردہ ہیں۔ کہتے ہیں جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔ آج یہ بچیاں اپنے بھائی اور والد کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا حساب مانگ رہی ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی زیراہتمام کیچ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کو آرگنائزڈ کرنے میں پس پردہ دیگر کافی کردار ہیں۔ جن میں حق دو تحریک کے بانی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ، عالم دین واجہ صبغت اللہ بلوچ، کامریڈ حسین واڈیلہ، لاپتہ طالبعلم رہنما شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ، بلوچ وومن فورم کی سربراہ ڈاکٹر شلی بلوچ، تربت سول سوسائٹی کے کنونیر گلزار دوست سمیت دیگر شامل ہیں۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ ایک نڈر اور باصلاحیت طالبعلم رہنما ہیں۔ جب وہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی (بساک) کی چیئرپرسن بنی۔ انہوں نے بلوچ طلبا کو ایک مضبوط پلیٹ فارم فراہم کیا۔ جوق در جوق طلبا نے شمولیت اختیار کی۔ آج یہ تنظیم بلوچ طلبا کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم کے طورپر سامنے آرہی ہے۔ ڈاکٹر صبیحہ کی سیاسی شعور سے حکومت خوف زدہ ہوگئی تھی۔ اس بوکھلاہٹ میں ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے بھائی اور کزن کو پرسرارطور پرلاپتہ کردیا گیا۔ ڈاکٹر صبیحہ کے بھائی ‏شاہ میر بلوچ کو 19 جون 2021 کو انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار سے چار ساتھیوں سمیت لاپتہ کیا گیا تھا۔ اسی طرح ڈاکٹر صبیحہ کے کزن مرتضیٰ بلوچ کو بھی 25 جون 2021 حراست میں لیکر جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ تاہم ڈاکٹر صبیحہ ہمت نہ ہارنے والی میں سے تھیں۔ انہوں نے سیاسی جدوجہد کا سفر جاری رکھا۔ انہوں نے ناصرف بساک کی چیئرپرسن کی مدت پوری کرلی بلکہ اپنی قیادت میں بساک کے انتخابات کروائے۔ آج کل بساک کے چیئرمین شبیر بلوچ ہیں۔ شبیر بلوچ کی پیدائش سنگھور گھرانے میں ہوئی۔ جس کا تعلق کراچی کے علاقے سنگھور پاڑہ ماری پور سے ہے۔

ڈاکٹر صبیحہ نے جھالاوان کی سرزمین میں جنم لیا۔ وہ جھالاوان کی بہادر بیٹی ہے۔ یہ سرزمین نواب نوروز خان کی سرزمین ہے۔ جنہیں قرآن شریف کے واسطے دے کر پہاڑوں سے نیچے اتارا گیاتھا ۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ آپ کے تمام مطالبات پورے کئے جائیں گے۔ لیکن بعد میں ان کے مطالبات ماننے سے انکار کردیا گیا اور نواب صاحب سمیت ان کے دیگر ساتھیوں کوگرفتار کرکےسندھ کی حیدرآباد جیل میں قید کیا گیااور پھر ان کے ساتھیوں کو پھانسی دیدی گئی۔ ون یونٹ کے آمر جنرلوں نے قرآن شریف کی بے حرمتی کی۔ اس روز سے آج تک بلوچ اور سرکار کے درمیان اعتماد میں ایک فالٹ لائن پیدا ہوگئی۔ اور یہ فالٹ لائن کبھی بھی ختم نہیں ہوگی۔ یہ فالٹ لائن آج ڈاکٹر صبیحہ کی شکل میں نظر آرہی ہے۔

سمی دین بلوچ ایک شیرنی کی طرح لانگ مارچ کی قیادت کررہی ہے۔ سمی بھی بلوچستان کے دیگر بچوں کی طرح کھیل کود سے واقفیت نہیں رکھتی ۔ کیونکہ وہ سڑکوں پر اپنے والد ڈاکٹردین محمد بلوچ کی بازیابی میں بڑی ہوئی۔ اس کا بچپن سڑکوں پر احتجاج میں گزرگیا۔ کبھی کراچی، تو کبھی اسلام آباد اور تو کبھی کوئٹہ کی سڑکوں پر دھرنے اور مظاہرے کے دوران ان پر تشدد کیا گیا۔ ان مشکل حالات نے انہیں ایک آئرن گرل بنادیاہے۔ ان کے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو 28 جون 2009 کو ضلع خضدار کے علاقے اورناچ کے اسپتال سے اغوا کیا تھا۔ ان کے اہل خانہ کی انتھک کوششوں، پولیس میں مقدمہ درج کرنے اور بلوچستان ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی درخواست کے باوجود ان کے کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ جو تاحال لاپتہ ہیں۔ ان کے والد کے اغوا کے بعد مشکے میں ان کے گھر کو آگ لگادی گئی۔ سمی کی ماں نے اپنی جان بچاکر بچوں کے ساتھ کراچی کی سڑکوں پر پناہ لی۔ سمی بلوچ اور اس کی چھوٹی بہن مہلب بلوچ میرے سامنے بڑی ہوئی ہیں ۔ اس زمانے میں دونوں اپنے والد کی تصویر دل سے لگا کر صرف روتی تھیں۔ اس اذیت ناک زندگی نے انہیں زبان دی۔ انہیں ہمت دی۔ آج یہ زبان پوری بلوچ قوم کے لئے آواز بن چکی ہے۔ آج یہ ہمت پوری قوم کو گھر سے باہر نکلنے کی جرات دی رہی ہے۔ آج سمی صرف اپنے والد کی بازیابی کی بات نہیں کررہی ہے بلکہ تمام بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ایک آواز بن کر ابھر کر سامنے آئی ہے۔

سمی بلوچ کی زندگی میں یہ پہلا لانگ مارچ نہیں ہے۔ بلکہ اس قبل انہوں نے کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد پیدل مارچ کیا۔ اس پیدل مارچ میں لاپتہ طالب علم رہنما ذاکر مجید کی بہن فرزانہ مجید بلوچ، شہید جلیل ریکی بلوچ کے والد ماما قدیر بلوچ اور لاپتہ سیاسی کارکن رمضان بلوچ کے بیٹے علی حیدر بلوچ شامل تھے۔ اس پیدل مارچ کو وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے سرانجام دیا گیا۔ آج سمی بلوچ اسی تنظیم کی سیکریٹری جنرل ہیں۔

یہ دنیا کا سب سے طویل پیدل مارچ تھا۔ مارچ میں شریک افراد کو لگ بھگ چار مہینے لگے تھے۔ اس مارچ نے چینی مارکسی عسکری و سیاسی رہنما، ماؤزے تنگ اور بھارت کے سیاسی اور آزادی کی تحریک کے اہم ترین کردار موہن داس گاندھی کے پیدل مارچ کا ریکارڈ بھی توڑدیا تھا۔ مگر بدقسمتی سے تمام بلوچ سیاسی لاپتہ افراد کی بازیابی تو کجالانگ مارچ کے شرکا کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والوں کو بھی نہ چھوڑاگیا۔

لانگ مارچ میں شریک افراد کے پاؤں میں چھالے اور زخم پڑ گئے تھے۔ پیدل مارچ کے شرکا جب کراچی پریس کلب کے سامنے پہنچے تو کراچی پریس کلب کی گورننگ باڈی نے پیدل مارچ کے شرکا کا استقبال کرنے کا فیصلہ کیا. کلب کے یارڈ پر استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس زمانے میں کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز فاران، نائب صدر سعید سربازی اور سیکریٹری عامر لطیف تھے۔ کراچی میں موجود ملکی و بین الاقوامی میڈیا نے لانگ مارچ کی تقریب کو کوریج دی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستانی میڈیا پر لاپتہ افراد کی کوریج پر پابندی نہیں تھی۔ صحافی برادری نے نہ صرف خبریں دیں بلکہ کالم اور اداریے بھی لکھے ۔ ٹی وی چینلز پر پروگرامز نشر کئے گئے۔ لاپتہ افراد کی کوریج سے حکومت گھبرا گئی۔ حکومت نے تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز پر لاپتہ افراد کی خبریں شائع یا نشر کرنے پرغیر اعلانیہ پابندیاں عائد کردیں۔ جو ہنوز جاری ہے۔

آج بھی بلوچستان کو درپیش سب سے بڑا مشکل مسئلہ مسخ شدہ لاشوں اور لاپتہ افراد کا ہے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی تک بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ اگر کوئی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں انہیں پاکستانی عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ ان پر ثبوت کی بنیاد پر مقدمہ چلایا جائے۔ مگر حکومتی ادارے اپنے قانون کے برعکس کام کررہے ہیں۔ جو نہ صرف بین الاقوامی بلکہ ملکی قوانین کے خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ سرکار کو اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔ بندوق کے زور پر حکومتیں نہیں چل سکتی ہیں۔ آج بلوچ نیشنلزم اپنی اس حد کو پار کرچکی ہے۔ اب واپسی کا راستہ ممکن نہیں ہے۔ بلکہ آج بلوچ 1948 سے قبل کا بلوچستان چاہتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔