بلوچستان کی آئرن لیڈیز ۔ عزیز سنگھور

528

بلوچستان کی آئرن لیڈیز

تحریر: عزیز سنگھور
دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ سماج میں خواتین کی سیاسی اور مزاحمتی سرگرمیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ روز بروز بلوچ خواتین اور طالبات کی نمائندگی بڑھ رہی ہے۔ اپنی صلاحیتوں اور قابلیت سے بلوچ تحریک میں ایک طاقتور قوت ابھر کر سامنے آگئی ہیں۔ بلوچ خواتین بھوک ہڑتال، احتجاجی مظاہرے اور لانگ مارچ میں ہراول دستہ کا کردار ادا کررہی ہیں۔ یہ موجودہ جاری بلوچ تحریک کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ تحریک میں ایک نیا باب کا آغاز ہوگیا۔ اب دنیا کی کوئی بھی طاقت بلوچ تحریک کو سبوتاژ نہیں کرسکتی ہے۔ یہ نظریاتی تحریک بن چکی ہے۔ یہ تنظیم جاتی پراستوار ایک سائنسی تحریک ہوچکی ہے۔ جو ایک جنس (عورت اور مرد) پر پرمشتمل نہیں ہے۔ بلکہ مرد و عورت یکمشت ہوچکے ہیں۔ اور نہ ہی یہ تحریک کسی ایک شخص کے گرد گھومتی ہے۔ بلکہ پوری تنظیمی ڈھانچے کے طورپر چل رہی ہے۔ موجودہ چلنے والی تحریک کو 23 سال کا عرصہ گزررہا ہے۔ اس جنگ نے ایک دوسری نسل پیدا کی ہے۔ اب یہ نسل عورت کی شکل میں بھی موجود ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) اپنے قیام سے لیکر ہنوز بلوچ تحریک میں ہراول دستہ کا کردار ادا کررہی ہے۔ بلوچ سیاست کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ مارکسسٹ نظریہ پر مبنی یہ واحد انقلابی تنظیم ہے۔ انقلابی سیاست کا معمار ہے۔ جب شہید بانوک کریمہ بلوچ نے بی ایس او کی چیئرپرسن شپ سنبھالی تو انہوں نے بلوچ طالبات کو سیاست کی طرف راغب کیا۔ اور وہ اس مقصد میں کامیاب بھی ہوئیں۔ آج بلوچ طلبہ سے بلوچ طالبات سیاسی طورپر زیادہ باشعور اور سرگرم ہیں۔ کریمہ بلوچ کی مزاحمتی سوچ سے سرکار خوفزدہ تھی۔ ان کے خلاف وارنٹ جاری کئے گئے۔ وہ کچھ سال کراچی اور کوئٹہ میں روپوش بھی رہیں۔ ان کے دیگر ساتھیوں کو لاپتہ کردیا گیا۔ کراچی میں ان سے میری بے شمار نشستیں ہوئیں۔ وہ ایک بہادر اور نڈر لڑکی تھی۔ وہ نظریاتی طورپر پختہ خیالات رکھنے والی اسٹوڈنٹس لیڈر تھی۔ بالآخر انہیں بلوچستان چھوڑنا پڑا۔ کینیڈا میں پناہ لی۔ جہاں ان کی شہادت ہوئی۔ اس شہادت نے بلوچ سوسائٹی کو ایک نئی روح پھونک دی۔ شہید کریمہ بلوچ نے تمام بلوچ لڑکیوں کو یہ احساس دلایا کہ وہ کسی سے کم نہیں ہیں۔ وہ بھی برابری کی طاقت رکھتی ہیں۔ ضلع کیچ کے علاقے تمپ میں پیدا ہونے والی یہ بہادر بیٹی نے بلوچ سماج کی آدھی آبادی (عورت) کو سیاسی طورپر بیدار کردیا۔

طالبات کی سیاست میں کردار ادا کرنے کا دوسرا اہم سبب بلوچستان کی شورش زدہ حالات ہیں۔ جو حکومتی پالیسی یعنی “مارو اور پھینکو” سے منسلک ہیں۔ ماورائے عدالت قتل عام کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جو ہنوز جاری ہے۔ بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں اور ان کی ملنے والی مسخ شدہ لاشیں ہیں۔ ہر دوسرے گھر میں ایک لاپتہ سیاسی کارکن ملے گا اور ہر پانچویں گھر میں ایک مسخ شدہ لاش ملے گی۔ ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکن روپوش ہیں۔ ان کی وارنٹ گرفتاریاں جاری ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر مردوں کی جگہ بلوچ خواتین اور طالبات نے سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا ہے۔

سرگرمیوں میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، سمی دین بلوچ، ڈاکٹر شلی بلوچ سمیت دیگر ہزاروں کی تعداد میں سرگرم ہیں۔ آج یہ بلوچ معاشرے میں آئرن لیڈیز بن چکی ہیں۔ مذکورہ ساری خواتین کی فیملی جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل جیسے واقعات کے شکار رہے ہیں۔ کسی کےوالد کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی ہے تو کسی کا بھائی یا والد لاپتہ ہوا ہے۔

حالانکہ قدیم بلوچ تاریخ پر ایک روشنی ڈالی جائے تو بلوچ سوسائٹی میں نہ صرف عورتوں کو ان کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق حاصل تھے۔ بلکہ مردوں کے برابر مساوی حقوق حاصل رہے ہیں ۔ عورت حکمرانی بھی کرتی تھی۔ جس کی بے شمار مثالیں ہیں۔

مائی چاہ گلی اپنی ریاست کی سربراہ تھی۔ جس کی ریاست مغربی بلوچستان کے علاقے دشتیار (ایرانی بلوچستان) سے ، مکران، شاشان، لسبیلہ سے لیکر موجودہ کوٹری (صوبہ سندھ) تک پھیلی ہوئی تھی۔

مائی چاہ گلی نے بلوچ سوسائٹی میں خواتین کو مساوی حقوق کی بنیاد ڈالی۔ فرسودہ رسم اور رواج کاخاتمہ کیا۔ اس طرح بلوچ سوسائٹی میں ایک ترقی پسندانہ سوچ کا جنم ہوا۔

مائی چاہ گلی نے اپنی حکومت کو معاشی اور عسکری بنیادوں پر مستحکم کیا۔ ریاست میں عدالت، فوج، پارلیمنٹ اور انتظامی ڈھانچہ قائم کیا گیا۔ مائی چاہ گلی جنگی محاذوں پر خود کمان بھی کرتی تھیں۔ وہ ایک مزاحمتی خاتون تھیں۔ جدید سائنس کہتی ہے کہ جینیاتی (جینز) طور پر منتقل ہونے والی نہ صرف بیماریاں بلکہ بہادری اور بزدلی بھی نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔ جو انسان کے جسم اور اعصاب پر اثرانداز ہوتی ہے۔

آج بلوچ تحریک میں مزاحمتی جدوجہد میں جینیاتی کی تھیوری کا بھی عکاسی کررہی ہے۔ جس کی وجہ سے مزاحمتی تحریک میں بھی خواتین کا کرادار نمایاں ہے۔ جن میں شاری بلوچ اورسمعیہ قلندرانی شامل ہیں۔

مائی چاہ گلی کے بعد بلوچ معاشرے میں عورت کا کردار آہستہ آہستہ پستگی کی جانب رواں دواں ہوا۔ جس کی وجہ سے بلوچ معاشرے میں عورت کا کردار تقریبا ختم ہوگیا۔ اور عورت کو ٹیبو (عیب) بنادیا گیا۔

ایک رجعت پسندی کا دور شروع ہوگیا۔ جہاں سماجی اقدار کا خاتمہ کیا گیا۔ ایک نئی رسم و رواج پر مبنی معاشرہ تشکیل دیا گیا۔ اس دوران کٹرمردانہ سوچ نے جنم لینا شروع کردیا۔

جب اٹھارویں صدی میں برطانوی سامراج نے خطے میں اپنے پنجے گاڑھے۔ تو بلوچ سرزمین کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک حصہ موجودہ ایران، دوسرا حصہ موجودہ پاکستان اور تیسرا حصہ موجودہ افغانستان میں بانٹ دیا گیا۔ بلوچ قبائلی نیشنلزم کی بنیاد پر مزاحمت کو کچلا گیا۔ مزاحمت کار سردار اور نوابوں کو گرفتار کیا گیا۔ بعض مزاحمت کاروں کو پھانسی دی گئی۔ ان کی جگہ سرکاری آلہ کار سوچ رکھنے والے سرداروں کو مضبوط کیا گیا۔ ان سردار اور نوابوں کو “سر” کا لقب دیا گیا۔ اپنے وفادار ”سردار“ مقرر کئے گئے۔ پھر انہیں سرداروں کو آزمانے کے لیے جنرل فورٹ سنڈیمن کی بگھی کو کھنچوایا گیا۔ اور آج بھی بگھی کھنچوانے کا سلسلہ جاری ہے۔ صرف حکمران تبدیل ہوگئے ہیں۔ انگریز سرکار کی جگہ پنجابی سرکار آگئی ہے۔ آج بھی ان سردار اورنوابوں کو جعلی مینڈیٹ دیا جاتا ہے۔ جعلی انتخابات کروائے جاتے ہیں۔ انہیں ڈمی حکومتیں بناکر دی جاتی ہیں۔ لیکن اقتدار کا لگام پنجاب کے پاس ہوتا ہے۔ ہر پانچ سال بعد سردار اورنوابوں کی منڈیاں لگائی جاتی ہیں۔ حال ہی میں پنجابی سرکار کے کہنے پر مسلم لیگ ن کے سربراہ نوازشریف اور پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو کے سامنے ان کی حاضریاں لگوائی گئیں۔ کوئٹہ کے سرینا ہوٹل میں بلوچستان کے نامور سردار اور نوابوں کی قطاریں لگائی گئیں۔ جہاں نواز شریف کے پرائیوٹ گارڈز انہیں دھکے دے رہے تھے۔

جب بھی بلوچستان میں حکومتیں بنتی ہیں۔ اس حکومت کی کابینہ میں سر سے لے کر پاؤں تک نواب اور سردار ملیں گے۔ ان کٹھ پتلی حکومتوں کے دوران لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

اور دنیا کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ بلوچستان میں حکمران پنجابی نہیں بلکہ بلوچ خود ہیں۔ بلوچستان میں طبقاتی جبر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بلوچستان میں طبقاتی جبر اپنے عروج پر ہے۔ آج بلوچستان میں کلاس (طبقہ) ایک بڑا مسئلہ ہے۔

بلوچ تحریک کو بیک وقت دو محاذوں کا سامنا ہے۔ ایک طبقائی جبر اور دوسرا قومی جبر ہے۔ یہ پورا ایک اشرافیہ کا سرکل ہے۔ سردار اور پنجابی سرکار کے مفادات مشترکہ ہیں۔ بلوچستان کے ساحل و وسائل پر اشرافیہ کا قبضہ ہے۔ غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہوتا جارہا ہے۔

حال ہی میں مکران کے علاقے تربت میں زیرحراست بالاچ بلوچ سمیت تین لاپتہ افراد کو ایک جعلی مقابلے میں قتل کے خلاف اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے مکران سے کوئٹہ ہوتا ہوا اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا گیا۔ یہ لانگ مارچ بلوچ خواتین اور بچیوں پرمشتمل تھی۔ جب یہ لانگ مارچ شاشان سے جھالاوان، ساراوان، شال، کوہلو، بارکھان اور کوہ سلیمان میں داخل ہوا تو ہزاروں خواتین اور بچوں نے شرکا کا استقبال کیا۔ اس استقبال میں ایک بھی بلوچ سردار کو ہمت و جرات نہیں ہوئی کہ وہ آئیں اور آکر ان خواتین اور بچیوں کے سرپر بلوچی دوپٹہ رکھیں ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ جب لانگ مارچ کے شرکا اسلام آباد پہنچ گئے جہاں بلوچ پرامن مظاہرین پر اسلام آباد پولیس کا وحشیانہ تشدد اور شیلنگ سے استقبال کیا گیا۔ جس سے متعدد خواتین اور بچے شدید زخمی ہوگئے۔ جبکہ لانگ مارچ کی قیادت کرنے والی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت 226 افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس دوران تمام سردار بلوچستان میں سیاہ کاری (کاروکاری) کے فیصلوں میں مصروف تھے۔ جو آج بھی جاری ہے۔ ان کے سامنے عورت ان کی ذاتی جائیداد ہے۔ پسند کی شادی کو بے غیرتی قراردیا جاتا ہے۔ فرسودہ قبائلی نظام میں عورت کو ایک ہتھیار کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے۔ مردوں کو صرف عورت کی غیرت کے نام پر منظم کیا جاتا ہے۔ باقی جگہ ان کی مردانی نظر نہیں آتی ہے۔ آج بلوچ سوسائٹی میں یہی عورت ہے جو بلوچ قوم کو ایک عزت بخشتی ہے۔ پوری تحریک اپنے سرپر اٹھائی ہوئی ہے۔ اپنے بھائیوں اور والدین کے لئے سڑکوں پر تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ اس وقت کیوں ان سرداروں کو بلوچی غیرت نہیں آتی ؟۔ جبکہ وہ حکومت میں ہوتے ہیں۔ منسٹرز اور سینیٹرز ہوتے ہیں۔ دراصل یہ پنجابی سرکار کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ پنجابی سرکارکے ذریعے یہ اقتدار حاصل کرتے ہیں۔

جبکہ خود سردار اپنے آپ کو بے غیرتی سے مستثنیٰ قراردیتے ہیں۔ 21 فروری 2023 کو بلوچستان کے علاقے بارکھان کے علاقے حاجی کوٹ سے ایک خاتون سمیت دو مردوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔ مذکورہ افراد سابق صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے قید میں تھے۔ قتل کرنے سے قبل ان کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کی گئی۔ عوامی ردعمل کے بعد سردار عبدالرحمان کھیتران کو گرفتار کیا گیا۔ پھر سارے سرداروں نے جرگہ طلب کرکے سردار عبدالرحمان کھیتران کو ریسکیو کرلیا۔ اس فیصلے کے بعد ان تمام بلوچ سرداروں کو بلوچی گھیر والی شلوار کی جگہ دھوتی پہن لینی چاہیئے تھی ۔ انہوں نے بلوچی ننگ و ناموس کا سودا کیا۔ بلوچ روایتوں کا خاتمہ کیا۔ یہ قبائلی جرگہ تو لاپتہ افراد کی جبری گمشدگی اور مسخ شدہ لاشوں پر بلانا چاہیئے تھا۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ کیونکہ تمام سردار سرکاری آلہ کار بن چکے ہیں۔

آج بلوچ خواتین نے لانگ مارچ اور احتجاجی مظاہرے کی شکل میں اپنے بھائیوں اور والدین کی جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت کے خلاف سڑکوں پر نکلی ہیں۔ یہ خواتین مائی چاہ گلی بن چکی ہیں۔ آج بلوچ کا سردارنی بلوچ خواتین ہیں۔ انہوں نے اپنی سرداری کی دستار بندی خود کی ہے۔ اپنے دوپٹہ پھینک کر مکران کی ثقافتی رومال کو اپنا دوپٹہ بنالیا ہے۔ اب یہ رومال مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔ ان خواتین نے اپنی چوڑیاں ان سردار اور نوابوں کے لئے پھینک دی ہیں۔ اب یہ چوڑیاں بھی ان نام نہاد سرداروں کو پہن لینی چاہئیں۔

آج بلوچ ماؤں اور بہنوں نے بلوچ قوم کو پوری دنیا میں ایک عزت دی، ایک قوت دی۔ آپ (سردار) اپنی عزت اپنے پاس رکھیں۔ بلوچ قوم کو معلوم ہے آپ کی عزت پنجابی سرکار کے سامنے کتنی ہے؟۔ دو ٹکے کی بھی عزت نہیں ہے۔

بلوچ قوم کو اپنی عورتوں پر فخر ہے۔ بلوچ معاشرہ ایک ارتقائی عمل سے گزررہا ہے۔ اب اس ارتقائی عمل کو کوئی بھی نہیں روک سکتا ہے۔ بلکہ اب “مرد کا بچہ” کے محاورہ کی جگہ اب “عورت کی بچی” نے لے لی۔ اب ہر کسی کو عورت کے وجود اور حیثیت کو ماننا پڑیگا۔ کیونکہ عورت نے مردوں کو جنم دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ نہ ماننے والا اپنے وجود سے انکاری تصور کیا جائیگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔