بلوچستان”انگارہ“ ہے ۔ رامین بلوچ

288

بلوچستان”انگارہ“ ہے

تحریر: رامین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچستان صرف ایک خطے کا نام نہیں یہ صرف ایک جغرافیہ نہیں بلکہ یہاں ہزاروں سالوں سے ایک انسانی آبادی بستی ہے جو اس کرہ ارض کا اٹوٹ انگ ہے یہاں ایک قوم بستی ہے وہ ”بلوچ“ہے جس کی ایک شاندار تاریخ، ثقافت، زبانیں، وطن اور ماضی بھی ہے۔ ایک مملکت ہے جس کانام ”بلوچستان“ ہے وہ عرب صحراؤں کی مانند بے آب خشک و بنجر نہیں یہ سرزمین محض چراگاہ نہیں بلکہ یہ قیمتی معدنیات کوئلے سونا چاندی قیمتی دھات تیل گیس اور قیمتی پتھروں کی سرزمین ہیں۔ جس کے باسی قبل از تاریخ کے زمانے سے آباد اور ایک قوم کی حیثیت سے یہاں رہ رہے ہیں۔

یہاں مختلف ادوار میں بیرونی حملہ آور اور قابضین آئے جو بلوچستان کو فتح اور قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام لوٹے۔ بلوچ قوم ان تمام بیرونی حملہ آور وں کے خلاف تاریخ کے ہردور میں مزاحمت کی اور اپنی گلزمین پر حملہ آوروں کو ذیادہ تر ٹکنے کی تمام مواقع مسدود کردیئے چائے وہ سائرس اعظم ہو منگول ہو محمد بن قاسم ہویا انگریز یا ان کے”نوآبادیاتی پاکستان“بلوچ قوم نے ان کے خلاف مزاحمت کی اور اپنی دھرتی ماں کی ایک ایک انچ کی حفاظت کی۔

وہ کسی حملہ آور کی نہ ثقافت قبول کی نہ زبان اور نہ شناخت، اگر چہ انگریز اوران کے نوآبادیاتی ریاست نے جغرافیائی طور پر بلوچ سرزمین کو تقسیم کرکے بلوچ آبادی اور زمین کو فرضی اور مصنوعی لکیروں میں بانٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا لیکن وہ ان کی تہذیب، روایت، مزاحمت، کلچر،فکری انفراسٹکچراورمشترکہ بلوچ قومی وشناخت کو تقسیم نہ کرسکے۔ آج بھی جغرافیائی طورپر منقسم بلوچ اپنی متحدہ اور آزاد وطن کے لئے یک آواز جدوجہد کررہے ہیں ان فرضی لکیروں کو آج کا بلوچ مسترد کرتاہوا آگے بڑھ رہاہے کیونکہ ان کا درد مشترک ہے ان کا وطن،آزادی،زبان، ثقافت اور قومی ہیروز مشترک ہیں۔

یہ دروشم،یہ یکجہتی، اتحاد اور مزاحمت کی یہ چنگاری ہمیں جبری گمشدگیوں اور جعلی مقابلوں میں بلوچ فرزندوں کے قتل عام کے خلاف بلوچ خواتیں ماؤں اوربہنوں کے احتجاجی مارچ میں اٹھنے والے نعروں اور احتجاج میں شرکت کرنے والے قومی و عوامی سمندرکے حاصلات سے ملتاہے۔جب یہ مارچ تربت سے شال اور شال سے کوہلو رکھنی ڈیرہ غازی خان اور تونسہ سے گزرتا ہوا آگے بڑھ جاتاہے توباہمی تعاون اور یکجہتی کی نو مثالیں بلوچ اجتماعی احساسات کا آئینہ بن کرنوآبادیاتی نظام کے خلاف نفرت کے سونامی بن جاتے ہیں بلوچستان کے گلیوں سڑکوں اور کوچوں سے لوگ نکل کر اس احتجاجی مارچ کا حصہ بن جاتے ہیں ”مکران سے ڈی جی خان تک بلوچستان ہے“کا نعرہ فضاؤں کی گونج بن جاتی ہے۔

یہ ناقابل مصالحت جدوجہدایک وسیع قومی کسوٹی پر آگے بڑھتے ہوئے بلوچ عوام کی ہمدردی جیتنے میں کامیاب ہوجاتی ہے”کوہ مراد“سے شروع ہونے والی یہ جدوجہد جب بلوچ سرزمین کے ایک ایک علاقے سے گزرتاہے تو بلوچ عوام کی شاندار شرکت اور استقبال ثابت کرتاہے کہ بلوچ بھیک منگا نہیں۔بلوچ کسی سے خیرات نہیں مانگ رہاہے اس کی فطرت اور جوہرمیں غلامی سے انکار ہے وہ اپنی فطری اور انسانی حق کے لئے کسی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹتی۔

بلوچ جہاں بھی ہے ان کا ”درد“ ایک ہی ہے وہ ایک دوسرے کا غم شریک اور”ہمدرد“ہے وہ درد ہے غلامی کا کالونائزرجب یہ کہتاہے کہ”بلوچ احساس محروم کا شکار ہے“ وہ مہاسفید بیانیہ ہے بلوچ محروم نہیں بلوچ ناراض نہیں بلوچ آپ سے روزگار نہیں مانگ رہا بلوچ نوکریوں میں حصہ داری کا واویلا نہیں کررہا بلوچ سرکاری ٹھیکوں میں شراکت داری کا خواہاں نہیں بلوچ روڈ سڑک اور آپ سے بجلی نہیں مانگ رہا بلکہ آپ سے اپنے ”آزادی“اور اپنے پیاروں کی بازیابی کامطالبہ کررہاہے جو سالوں سے آپ کے زیر زمین زندانوں میں بند ٹارچر سیلوں میں آپ کی ظالمانہ اور غیر انسانی تشدد کاسامنا کررہے ہیں۔

جنہیں واٹر کرنٹ اور بجلی کے جھٹکے دیئے جاتے ہیں جن کے پٹھوں پر لکڑی کے رولر پھیرا جاتاہے، گرم مادوں سے داغ دیاجاتاہے، الٹا لٹکایا جاتاہے، زہنی وجسمانی اور نفسیاتی اذیتیں دی جاتی ہیں اور بلاخرانہیں فرضی مقابلوں کے نام پر شہید کیاجاتاہے گولیوں سے چھلنی ان کی لاش ملتی ہے بلوچ آپ سے اس منظم تشدد اور ماس کلنگ کے سلسلے کو روکنے کی بات کرتا ہے۔ بلوچ آپ کو یہ یاد دلارہاہے کہ یہ غیر انسانی عمل ہے یہ عالمی قوانیں کے خلاف ورزی ہے یہ جنگی ضوابط اور قوانین کے منافی ہے یہ غیر انسانی سلوک ہے یہ جنگی جرائم اور نسل کشی ہے جس پر آپ کے دستخط موجود ہے یہ جنیوا کنونشن کی سنگین پامالی ہے۔

یہ جو آپ زیادتی کررہے ہیں یہ آپ کے اپنے نام نہاد قوانین کا وائیلشن ہے آپ کے آئین ڈھکوسلہ ہے یہ صرف عالمی دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔لیکن آپ کی آئین آپ کی عدالت آپ کی کوئی اسمبلی یا ایوان نہیں ہیں جو آزادانہ کام کرسکے یہ سارے کنٹرولڈ ہیں آپ کے سارے ادارے کٹھ پتلی اور پپٹ ہے آپ کے ہاں نہ انصاف ہے نہ قانوں نہ پارلیمنٹ، آپ کے سارے ادارے آپ کی نو آبادیاتی تسلط کو بچانے کے لئے لائف سپورٹ مشین کا کردار ادا کررہے ہیں۔

آپ کہتے ہیں کہ بلوچ ناخواندہ ہے بلوچ پڑھنا نہیں چاہتا بلوچ نوجوانوں کی سیاست میں حصہ داری پر آپ کو اعتراض ہے یہ آپ کی علمی تہذیبی اور سیاسی جہالت ہے، بلوچ ناخواندہ نہیں بلوچ باشعور ہے اگر ہے تو وہ صرف غلام اگر محروم ہے تو اپنی آزادی سے اپنی آزاد وطن سے۔ اگرآج بلوچ یہ جانتاہے کہ اس کا ستحصال ہوا ہے اس پر جبر ہواہے اس کی آزادی سلب کی گئی ہے اسے مارا پیٹاجارہاہے تو وہ باشعور ہے اس سے زیادہ بیداری اور خواندگی کا معیار کیا ہوگا کہ وہ اپنے دشمن کا ”پہچان“ کرچکاہے وہ یہ جانتاہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی اقوام سے کم تر نہیں وہ پنجاپ سے برابری نہیں چاہتا بلکہ عالمی برابری کا حقدار ہے۔

وہ سمجھ چکاہے اس کی زندگی کی قیمت سستی نہیں، اس کا خون ارزان نہیں،اس کی شریانوں میں بھی وہی خون دوڑ رہاہے جو آزاد ااقوام کے شریانوں میں دوڑتاہے۔ وہ جانتاہے کہ پوری نسل انسانی کا خون سرخ ہے یہ سرخ رنگ کا سیال سب میں یکسان ہیں اور ہر انسان کی زندگی کا خون اسی خون سے عبارت ہے تو پھر ہمارا خون اتنی ارزان کیوں جسے ریاست بے دردی سے بہارہی ہے؟ وہ کونسا مہلک ہتھیار اور بارود نہیں جو بلوچ آبادیوں پر استعمال نہیں ہوا؟وہ کونسی جبر وحشت نہیں جسے ہم پر نہیں آزمایا گیا؟ بلوچستان جسے مقتل گاہ بنائی گئی کیوں؟ اور بہانے کے لئے صرف بلوچ راج نوع کا خون کیوں؟

جب وہ نو آبادیات نظام کی اس سفاکی کوسمجھتاہے تو اس کے خلاف خاموش رہنے کے بجائے جدوجہد کے میدان میں اترتے ہوئے اپنی آواز اور عمل کے زریعہ جدوجہد کو توانائی اور جرائت فرائم کرتی ہے تو وہ باشعورہے۔

بیداری کی یہ صورتحال اور قومی یکجہتی کی ابھرتی ہوئی یہ دروشم حوصلہ افزاء ہے بلوچ خواتین کی قیادت کا یہ انقلابی اٹھان لانگ مارچ کی شکل میں بلوچ نسل کشی کے خلاف صرف ایک صدا نہیں صرف ایک درد نہیں بلکہ عالمی ضمیر کو جگانے کے لئے ایک پیغام، ایک مزاحمت، اور ایک احتجاج ہے۔

کان پھاڑنے والے یہ نعرہ بے معنی اور بے مقصد نہیں بلکہ ان میں رنگ و نور میں نہائی بھری بلوچ سرزمین کی وہ آواز یں ہے جسے ریاست نے خون میں نہلایاہے یہ وہ اسپرٹ ہے جو ریاست کو بتارہی ہے کہ بلوچ نسل کشی بند کرو بلوچستان میں جو انسانی المیہ و بحران برپا کیاگیاہے وہ ختم ہوناچاہیے۔جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کیا جائے جعلی مقابلوں میں قتل عام کو روک دیاجائے یہ وہ بہنیں ہے جن کے بھائی ان سےالگ کردیئے گئے ہیں یہ وہ مائیں ہیں جن کے لخت جگر جبری لاپتہ کردیئے گئے ہیں یہ وہ بیوہ ہیں جن کا شوہر شہید کردیا گیاہے۔
یہ وہ ننھی اور معصوم بچی اور بچیاں ہیں جن کے باپ کا سایہ ان سے چھینا گیاہے یہ وہ بچے ہیں جنہیں مائیں لوریوں میں ان کی باپ کی شہادت کی کہانیاں سناکر سلاتے ہیں یہ وہ بچے ہیں جن کے ہاتھوں میں کھلونوں کے بجائے وہ تصویریں ہیں جن کے والدین ریاستی حراست گاہوں میں ہیں ان بچوں کی امنگیں ہوں گی، خواب ہوں گے،مسکراہٹ ہوں گے، لیکن ایک درد اور غم جو ان کے معصوم چہروں سے چھلک رہاہے وہ ہے ان کی اپنی پیاروں کی بازیابی کا ہے، تصویروں کا یہ کینوس لے کر وہ آسمان پر جلتا ہوا سورج تو دیکھ سکتے ہیں فضاء میں پرندوں کی چہچہاہٹ تو انہیں نظر آتاہے سیاہ شبی میں بھی وہ چاند انہیں نظر آتاہے جو تاریکیوں کو چیرتا ہوا روشن ہوجاتاہے لیکن جب اپنے آس پاس دیکھتے ہیں تو انہیں ریاستی تشدد اور ہولناکیاں نظر آتی ہیں۔ اور وہ اپنے باپ کو اپنے درمیان نہ پاکر سوچتے ہوئے اپنی خیالات میں بلوچستان کانقشہ پاکر اسے خون زدہ پاتے ہیں یہ بچے اگرکل آرٹ تھیراپسٹ بنیں گے ڈاکٹر بنیں گے انجینیئر بنیں گے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ آزادی کے بغیر ہر مقصدبے معنی ہے۔

وہ اس ٹھٹرتے سردی میں اسلام آباد کے سڑکوں پر انصاف کے لئے نکلے ہیں تاکہ امن کے علمبردار انسان دوست قوتین انسانی حقوق کے پیشرو عالمی منصفین ان کی آواز سنیں امن عالم کے دعویداروں کی ضمیر جاگ جائیں عالمی میڈیا ان کی آوازکو رپورٹ کرے۔ جو آئے روز انسانی حقوق کے دعوی کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کرہ ارض میں ایک مقبوضہ قوم”بلوچ“بھی ہے جن کے گھر ماتم کدہ بن چکے ہیں جن کے کوچہ و دمگ قبرستان کا منظر پیش کررہے ہیں بلکہ کئی بے نام اور اجتماعی قبروں کی روئیداد ان کی سینوں میں مدفوں ہیں لیکن جب یہ مارچ ان ہی مطالبات کو لے کراسلام آباد پہنچتی ہے۔ تو ان کی آواز کو سنجیدہ لینے کے بجائے نوآبادیاتی پولیس انہیں منشر کرنے کے لئے ان پر لاٹھی چارج کرتی ہے ان پر واٹر کینن کا استعمال کرتی ہے ان پر آنسو گیس اور کیمیکل پھینکا جاتاہے۔ انہیں گرفتار ولاپتہ کیا جاتاہے بوڑھے اور ضعیف ماؤں کے گلے دبائے جاتے ہیں۔

بہنوں کے دوپٹہ تارتار کیاجاتاہے انہیں مارا پیٹا اور گھسیٹا جاتاہے انہیں لہولہاں کردیاجاتاہے بچے اور بچیوں تک کو بخشا نہیں جاتا، ان کے پیاروں کی تصویریں پھاڑ دیئے جاتے ہیں ان پر مقدمہ درج کیا جاتاہے ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ہمراہ خواتین سا تھیوں کو پولیس سٹیشن اورٹارچر سیلوں میں محصور کرکے شدید تشدد کا نشانہ بنائی جاتی ہیں ان کے مرد ساتھیوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جاتاہے حالانکہ ان کے مطالبات انتہائی سادہ اور انسانی حقوق کے ہیں لیکن ریاست ان مظاہرین سے اتنی گھبرائی ہوئی اور گہری دباؤ کا شکار ہے کہ راتوں رات وہ بلوچ مظاہریں کو بسوں میں ڈال کر واپس بلوچستان بھیجنے کی منصوبہ بندی کرتی ہوئے انہیں ڈی پورٹ کرنے کا حکم نامہ جاری کرتاہے۔

یہ نہتے لوگ جن کے ہاتھوں میں جبری گمشدہ افراد کی تصاویر،چند پینا فلیکس اور نعروں کے علاوہ کچھ نہیں ان کا سارا اثاثہ وہ تصویریں ہیں جو سالوں سے لاپتہ ہیں ان کے ہاتھوں میں کوئی آتشی اسلحہ، نہ بندوق ریوالور،بارودکچھ بھی نہیں لیکن پھر بھی ریاست ان سے خوف زدہ ہے۔ ان سے آزادانہ احتجاج کا حق چھین لیاجاتاہے ان پر اسلام آباد کے پریس کلب جانے کے تمام راستے بند کردیئے جاتے ہیں پریس کلب سیل کیاجاتاہے ان کی آواز کو سبوتاژ کرنے کی ہر آخری حربہ اور اوزار استعمال کی جاتی ہے لیکن بلوچ خواتین اپنی گمشدہ پیاروں کی بازیابی اور فیک انکاؤنٹرزکو روکنے اور ڈیتھ سکواڈ کو غیر فعال کرنے کے کلیدی مطالبات سے کم تر موقف پرآمادہ نہیں ہوتے اور پیچھے نہیں ہٹتے، اور ریاست کی بربریت کو شکست دے کر پریس کلب کا رخ کرتے ہوئے دھرنا پر بیٹھ کر بلوچستان میں انسانی حقوق کی معطلی پر ریاست کو جوابدہ بناکر انہیں عالمی کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں۔قابض یاد رکھئے جب بلوچ کی ننھے اور معصوم بچے آنسو گیس کی اس بو بھری ہوا میں سانس لیتے ہیں یا اپنے ماؤں پر تشددکے اس بے رحمانہ صورتحال کو دیکھتے ہیں یاوہ لاٹیاں جو ان پر تواتر سے برستی ہے تو ان کی شعوری نشودنماء میں ایک فکرپنپتی ہے جس طرح ماہ رنگ سمی دین زاکر مجید اور راشد بلوچ کی ماں آج اس جدوجہد کا حصہ ہے جس طرح بالاچ اور فتح کے والد آج نکلے ہیں توکل یہ معصوم بچے جو اس مظاہرہ کا حصہ ہے جو درد سے کرارہے ہیں رورہے ہیں،کل وہ اس درد کو آپ کی طرف لوٹاکر اس تحریک کے روح رواں بنیں گے۔

آنسو گیس کا یہ سرمئی دھوان جس کے ہر گزرتے لمحہ ان بچوں سے ہوا میں سانس لینے کا جو حق چھین رہاہے کل یہ آپ سے اسی طرح اپنی آزادی چھین لیں گے وہ سمجھتے ہیں کہ جبر و تشدد سے مشعلیں بجھا ئیں نہیں بھج سکتی یہ آگ ان کے سینوں میں چنگاری کی مانندپھر سے اٹھے گی وہ جانتے ہیں جہاں جدوجہد سٹریٹجک بن جائے تو وہ پھروہ کسی قیمت پر رکتی نہیں۔

ہماری مائیں اوربہادر بیٹیاں جنہوں نے سربلندی سے جینے کا ڈھنگ سیکھ لیاہے ان کا حوصلہ اور قد بہت بڑاہے یہ لاٹھیوں اور زہنی و جسمانی تشدد ٹارچر اور ایذارسانی سے نہیں ٹوٹیں گے۔ تاریخ انہیں قابل رحم نہیں قابل عزت اور بہادر انقلابی خواتین کے حیثیت سے یاد رکھے گی وہ بلوچ قوم کے کامریڈز،ہیروز اور نظریاتی علمبردار ہیں۔ آج کا بلوچ عورت اپنی قومی تحریک کا حصہ ہے وہ تمام ترنوآبادیاتی نظام کی صنفی و جنسی تقسیم کو مسترد کرے ہوئے جدوجہد کررہاہے وہ مردو وعورت کے فرق کو مٹاچکاہے۔

جینیاتی حیاتیاتی ساخت بناوٹ عورت کا ویسا ہی ہے جیسے ایک مرد کی، ذہنی، جسمانی، سائنسی اور مادی خصوصیات سب کا ایک ہی ہے یہ صنف و جنس کی تقسیم بلوچ سماج کی پیداوا ر نہیں یہ جدوجہد کسی فرد واحد یاکسی جنس واحد کی نہیں پوری بلوچ قوم کی ہے یہ جدوجہد ایک مطالبہ نہیں ایک آدرش ہے۔

قبضہ گیر یاد رکھے کہ بلوچستان ایک انگارہ ہے اور انگارے کو زیادہ دیر تک کوئی اپنی مٹھی میں نہیں دباسکتا قبضہ گیر کا کوئی مذہب نہیں ہوتا
جارحیت کو مذہب زبان نسل رنگ اور جغرافیہ میں تقسیم نہیں کیاجاسکتامسلمان ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی ہم مذہب ہم پر جبر وتشدد کرے اور ہماری وطن پر جبری طور پر قبضہ کرے ہمیں تشدد کا نشانہ بنائے اور ہم اس لئے خاموش رہیں کہ وہ ہمارا ہم مذہب ہے ظلم کا یہ کونسا پیمانہ اور میعار ہے ہے کہ کوئی مسلمانیت کا جواز لے کر ہمیں غلام بنائے اور ہم اسے کاتب تقدیر سمجھے۔ ایسے مذہبی رشتہ کا ہمارے ساتھ کوئی شعوری سیاسی تاریخی اور جغرافیائی تعلق اور بندھن نہیں اور جس کا کوئی زمینی وجغرافیائی پس منظر بھی نہیں بلوچ اسے کیونکر قبول کرے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔