بغیر وردی والے صحافیوں کو بھیجنے والا آئی ایس پی آر ہے۔ ہماری زمین پر آپ نے خون ریزی کی آج تک مذمت نہیں کی۔ کسی بھی میڈیا چینل کو چیلنج کرتی ہوں کہ وہ بلوچستان آئیں۔
ان خیالات کا اظہار اسلام آباد پریس کلب کے سامنے “بلوچ نسل کشی کیخلاف لانگ مارچ و دھرنے” کی رہنمائی کرنے والی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کیا۔
صحافیوں کے رویے سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ افراد کو بھیجنے والا آئی ایس پی آر ہے۔ فضاء کو بولتی ہوں جو وردی آپ نے پہنی ہے وہی آپ کی حقیقت ہے، اس وردی کے ساتھ آپ مائک نہ اٹھائے، آپ نے اس مائک کی بے شرفی کی ہے۔
ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ہمیں معلوم تھا کہ آپ کا چینل کس کی چاپلوسی کررہا ہے، آپ کے چینل کو فنڈز کون دے رہا ہے، ہمیں پتہ تھا جو ریاستی بیانیہ ہے آپ کا چینل اس نیوز کو نشر کرتی ہے۔ آپ اپنے چینل کا نام بول نیوز کی بجائے آئی ایس پی آر رکھ دے تو زیادہ آسانی ہوگی لیکن پھر بھی ہم نے آپ کو عزت دی۔
صحافیوں نے سوال کیا کہ آپ نے قومی سلامتی کے ایک بڑے ادارے (آئی ایس پی آر) پر الزام عائد کیا ہے، اس حوالے سے کوئی ثبوت ہے؟
جس کے جواب میں ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ ثبوت ان کے سوالات ہیں۔ یہاں بہت سے ذمہ داری صحافی بھی آتے ہیں جن کو میں نے کہا ہے کہ آپ میری نہ سنیں بلکہ یہاں بیٹھے متاثرہ لواحقین سے بات کریں۔
انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے آپ (صحافی) کی کارکردی دیکھی جائے کہ آپ نے بلوچوں کی نسل کشی پر کیا مذمت کی ہے، قتل و غارت پر کیا مذمت کی ہے۔ بلوچ نسل کشی پر آپ (صحافی) کا کوئی سوال نہیں آیا اور آپ ہم سے مذمت کراکر صرف اس بیانیے کو ختم کرانے چاہتے ہیں۔
ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ آپ نے بلوچستان کو ایک کالونی کی طرح ٹریٹ کیا ہے۔ ہماری زمین آپ کے ریاستی اداروں کی وجہ سے خون سے رنگی ہوئی ہے، آپ نے اس خون ریزی کی آج تک مذمت نہیں کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ مذمت کرواکر اس مسئلے کو حل کروانا چاہتے ہیں اور ریاست کی اتنی بڑی نسل کشی کو غلطی قرار دیتے ہیں تو آپ کو شرم آنی چاہیے اور صحافت کی اس ڈگری کو کسی گھٹر میں پھینک دینی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاشرے جہاں ظلم و جبر کو “جسٹیفائی” کیا جاتا ہے۔ ریاست اپنی پوری مشینری کیساتھ بلوچ نسل کشی کو چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔ بلوچستان میں ایک بھی میڈیا چینل نہیں ہے۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے پریس کلب میں پریس کانفرنسز کو کوئی ایک چینل ریکارڈ نہیں کرتا ہے۔
ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں جب پاکستانی فورسز عورتوں کو مارتی ہے، جب ہوشاب میں فورسز نے دو بچوں پر گولہ بارود پھینکے، وہ خبر آپ نے کبھی نہیں دی۔
ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ میں کسی بھی میڈیا چینل کو چیلنج کرتی ہوں کہ وہ بلوچستان آئیں، آپ (صحافیوں) میں سے کون ہے جس نے تربت، ہوشاب، آواران دیکھا ہے۔ آواران میں آپ کو داخلہ نہیں ملے گی بلکہ آپ کو ویزا لگاکر جانا پڑے گا۔ یہ وہ بلوچستان ہے جس کو آپ میں سے کسی نہیں دیکھا ہے بلکہ وٹس ایپ سے کاپی پیسٹ کرکے تصویر کشی کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اُس بلوچستان کو دیکھنے کی آپ میں جرات نہیں ہے اگر آپ دیکھے گے مجھے یقین ہے کہ اگر آپ میں انسانیت ہوگی تو آپ شرم سے ڈھوب کر مر جائینگے۔
انہوں نے کہا کہ آپ ہم سے مذمت کرواکر اپنے ریاستی جبر کو نہیں چھپا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے یحییٰ اور اپنے سب سے بڑے ہیرو مشرف سے مذمت کروائے کہ اس نے ایک اسی سالہ نواب بگٹی پر بھی گولہ باری کی۔ جاکر ریاست کے مشینری سے مذمت کروائے کہ انہوں نے بلوچوں کی نسل کشی کیوں کی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ریاست کی حقیقت ہے کہ رات ساڑھے تین بجے ویگو میں آکر، بزدلوں کی طرح عورتوں و بچوں کو زدوکوب کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پوری بلوچ قوم ہمارے ساتھ کھڑی ہے، ہم اپنے نسل کشی کیخلاف کھڑے ہیں، ہم اپنی سرزمین پر آپ کا ایک قدم بھی برداشت نہیں کرینگے۔ وہ قدم، وہ بندوق جو معصوم لوگوں پر چلائی جارہی ہے ہم اس کے خلاف ہے۔