بانک کریمہ بلوچ کی تیسری برسی کے موقعے پر کراچی میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ بلوچ وومن فورم

302

بلوچ وومن فورم کی جانب سے اکیس دسمبر کو بانک کریمہ کی تیسری برسی کے موقع پر کراچی کے علاقے ملیر میں سیمینار اور فن پاروں کی نمائش کا انعقاد کیا گیا ۔ سیمینار کے اسپیکر بلوچ دانشور میر محمد علی تالپور، عوامی ورکر پارٹی کے رہنما خرم علی، صحافی وینگس ، بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے ڈپٹی آرگنائزر لالا وہاب بلوچ اور بلوچ وومن فورم کے آرگنائزر ڈاکٹر شلی بلوچ تھے۔ سیمینار میں کراچی کے عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی ہے۔

سیمینار کی شروعات بانک کریمہ بلوچ کی یاد میں دو منٹ کے خاموشی سے کی گئی اور انہیں خراج عقیدت پیش کی گئی۔ پروگرام کا آغاز کریمہ بلوچ کی زندگی اور جدوجہد پر ڈاکومینٹری پیش کر کے کیا گیا جس میں یہی پیغام دیا گیا کہ کریمہ بلوچ کے نقش قدم پر چل کر تحریک کے تسلسل کا برقرار رکھنا ہوگا ۔

رہنماؤں نے خطاب میں کریمہ کی بلوچ تحریک میں خدمات اور اُن کے سیاسی کردار ؤ زندگی پر تفصیل سے اظہار کیا گیا۔

سیمینار کے پہلے اسپیکر وینگس تھے جو کہ صحافی ہیں اور کریمہ کے قریبی ساتھی رہے ہیں، انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ مرنا سب کو ہے مگر بات یہ ہے کہ آپ اپنے مرنے کا انتخاب کس راہ میں کرتے ہیں ،ہم سب کو ایک دن کہانی بننا ہے مگر کہانی بنو تو ایسی بنو “کریمہ کی تصویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے “ کہ تاریخ بھی آپ پر فخر کرے۔ تاریخ کی جس کتاب میں کریمہ کی کہانی لکھی جا رہی ہے وہ فخر کرے کہ وہ امر کردار کی کہانی لکھ رہی ہوں ۔ آپ درد کو مٹھا نہیں سکتے، آپ عشق کو مٹھا نہیں سکتے، وہ عشق جو دھرتی سے ہو۔

لالا وہاب بلوچ نے اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم دنیا کی تاریخ کا اگر مطالع کریں تو ان انقلابی افکار ؤ شخصیات کو سامراج اپنے ظلم و جبر سے کچل نہیں سکا ہے جِن انقلاب کے پہلی صف میں عورتیں کھڑی رہی۔

عوامی ورکر پارٹی کے رہنما خرم علی نے اپنے خطاب میں کہا کہ بانک کریمہ میرے لئے ایک تنظیم کا نام ہے کیونکہ جب ہماری ملاقات ہوئی تو وہ ملاقات قومی آزادی کے جدوجہد کی اور اشتراکیت کے فکر کی ملاقات تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ چئیرمین زاھد کے بعد بی ایس او آزاد کی جو نظریاتی فکر ہے شاید وہ ختم ہوجائے کیونکہ پہ در پہ بی ایس او آزاد کی قیادت کو اٹھایا جا رہا تھا یا ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا تھا۔ اس کٹھن وقت میں بانک کریمہ نے بلوچ طلباء کی قیادت سنبھالی۔

خرم علی نے اُس دور کے حالات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کہ حالت یہ نہیں تھے جو آج ہیں، اُن حالات میں لیفٹ کی تنظیموں کو کراچی پریس کلب تک لانا ناممکن سی بات تھی۔میرے لئے تعجب کی بات یہ تھی کہ کوئی بڑا لیڈر ہم سے مختلف نہیں ہوتا، اسکے بھی جزبات ہوتے ہیں اسکو بھی مایوسی لپیٹ میں لیتی ہے لیکن کمال اسکا یہ ہوتا ہے کہ وہ ان تمام چیزوں کہ باوجود آگے بڑھتا ہے ،جب پریس کلب میں لطیف جوہر کی حالت خراب ہورہی تھی تو کریمہ کی آنکھوں میں آنسو بھی آئے مگر وہ ڈٹی رہی کہ یہ بھوک ہڑتال بند نہیں ہو سکتا اور اپنے موقف پر ثابت قدم رہے ۔

سیمنار کے مہمان ء خاص میر محمد علی تالپور تھے، انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ کریمہ بلوچ کا ضمیر ہے کریمہ بلوچ کا شعور بھی ہے۔ کریمہ کی جدوجہد نے بلوچ قوم کو خاص طور پر بلوچ خواتین کو بہت کچھ سکھایا اور بلوچستان بھر جو مزاحمت کی حالیہ ابہار اٹھی ہے یہ کوئی spontaneous چیز نہیں ہے اس کے پیچھے بلوچوں کی پچھتر سال کی جدوجہد ہے۔ بانک کریمہ کی جدوجہد ہے۔
جو ہم نے قربانیاں دی ہیں ابھی بھی لوگ نہ اٹھتے تو قیامت ہوتی ، ہمارے لوگوں نے قربانیاں دی ہیں اس سوکھی ہوئی وائے وتن ھُشکیں دار اس خشک لکڑی پر خون چھڑکہ ہے اسی وجہ سے اب لوگ اٹھے ہیں اور یہ لوگوں کا اٹھنا اس ریاست کی شکست ہے جتنا ہمیں دبائیں گے ہم اتنا ابھریں گے یہ ہمیں دبا بھی نہیں سکے گے اگر دبا سکتے تو 75سالوں میں دباتے ۔ہم کریمہ کا سوگ نہیں مناتے ہم کریمہ کی زندگی مناتے ہیں۔

بلوچ وومن فورم کی آرگنائز ڈاکٹر شلی‌بلوچ نےاظہار خیال کیا کہ آج ھم سب بلوچ وومن فورم کے اس اسٹیج پر کھڑے ہیں وہ بانک کریمہ کی بدولت ہے۔ کریمہ کو بانک کا اعزاز انکی جہد مسلسل کے بدولت ملا ہے کہ آج قوم انکو انکے نام سے نہیں بلکہ بانک کہہ کر پکارتی ہے ۔
کریمہ بس ایک نام نہیں ہے ، کریمہ ایک عہد ہے ، نظریہ ہے ، کریمہ تاریخ ہے اور کریمہ بلوچستان ہے ۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم ایسے عہد میں جی رہے ہیں اُس عہد نے ہمیں بانک دیا ۔
ریاست نے سوچھا اگر میں بانک کریمہ کو شہید کر دوں گی تو کہانی یہاں ختم ہو گی لیکن یہ ریاست کی بھول تھی ، کہانی یہاں سے ختم نہیں ہوئی بلکہ کہانی کی ابتداء ہوئی، بانک نے جو بیچ بلوچستان کے سینے میں بھویا ہے اُس میں جو درخت اُگاہے اب وہ بڑا ہوکر سارے بلوچستان کو مختلف رنگوں میں سایہ دے رہی ہے۔
آخر میں انہوں نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور انہیں بلوچی چادر تحائف کے طور پر پیش کئے۔

سیمینار کا دوسرا اور آخری حصہ فن پاروں کی نمائش کا تھا۔ بلوچستان بھر کے آرٹسٹوں نے بانک کریمہ کے بنائے ہوئے فن پارے پیش کئے جِن کے زریعے کریمہ بلوچ کی تحریک میں تاریخی کردار کو خراج تحسین پیش کی گئی۔