ایک مظبوط آواز ٹارچر سیل میں قید ہے
تحریر : زرینہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آزادی قدرت کی طرف سے انمول تحفہ ہے ہر ایک جاندار آزاد رہنا پسند کرتا ہے اور اسکا حق بھی ہوتا ہے۔ زنجیروں کے ساتھ باندھے رہنا جانوروں کو بھی پسند نہیں ہے انسان کیسے اپنے لیے اور اپنے پیاروں کے لئے پسند کر سکتا ہے ؟
کسی پرندے کی مثال لے لو جب وہ آزاد ہوتا ہے جہاں تک ممکن ہوتا ہے اڑنے کی کوشش کرتا ہے اور مسلسل جدوجہد میں ہوتا ہے کہ وہ آسمان کو چُو لیں ۔اسی پرندے کو کسی پنجرے میں بند کر دو تو وہ مایوس اور بے بس ہوجاتا ہے مسلسل اس پنجرے سے آزاد ہونے کی کوشش کرتا ہے۔
(بلوچوں کا عظیم رہنما واجہ خیربخش مری کہتا ہے ، کہ اگر یک پرندے کو پنجرے میں بند کر دو ، اسے سونے کی گلاس کے اندر پانی اور دانہ دے دو وہ پھر بھی آزاد ہونا چاہتا ہے )۔ ہم پھر بھی انسان ہے، دنیا کے ہر کھونے میں دیکھا جائے تو جانوروں کو بھی جینے اور آزادی سے رہنے کا حق دیا جاتا ہے۔پاکستان میں جانوروں کے حقوق دور کی بات یہاں انسان محفوظ نہیں ہیں ۔ بلوچ قوم کو سکون سے رہنے اور جینے کا بھی حق نہیں دیا جاتا ہے ۔آئیں روز کسی نہ کسی کو لاپتہ کرکے آندھیریں کمروں میں بند کر دیا جاتا ہے۔ ہر طرح کی ازیت دیا جاتا ، ٹارچر کیا جاتا ، یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری و ساری ہے نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ویراؤں میں ملتے ہے جنہیں جھوٹی مقابلے میں مارے جانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے ۔
بلوچستان کے ہر کھونے سے نوجوانوں کو لاپتہ کیا جاتا ہیں۔بلوچستان یا پاکستان کا دوسرا صوبہ ہر جگہ سے بلوچ لاپتہ کئی جاتے ہے تاکہ پاکستان کے باہر ملکوں میں بھی بلوچ قوم محفوظ نہیں ہیں وہاں بھی جبری گمشدگی کی شکار ہوجاتے ہیں۔
راشد حسین انسانی حقوق کا کارکن تھا بلوچستان میں ہونے والا ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھاتا تھا ۔پاکستان کے اداروں سے سوال پوچھتا تھا کس جرم میں بلوچ قوم کے نوجوان کو لاپتہ کیا جا رہا ہے ۔راشد حسین بلوچستان کے ماؤں کے درد اور تکلیف کو اپنے تکلیف سمجھ کر ان کے لئے آواز اٹھاتا تھا ریاست نے اس کو لاپتہ کر دیا۔ اسلامی ملک دبی کی مدد سے راشد حسین کو لاپتہ کیا گیا تھا ۔راشد حسین دبی میں کام کر رہا تھا۔ دبی کے شہر شارجہ میں راشد حسین کو 26دسمبر 2018 کو حراست میں لیا گیا اور 22 جون 2019 کو پاکستاں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔جب پاکستان میں منتقل کر دیا گیا تھا تو راشد کو حراست میں لینے کی خبر پاکستان کے نیوز چینلوں میں چلائی گئی تھی ۔ جو اس بات کا واضح ثبوت ہے راشد حسین پاکستان کے خفیہ اداروں کے پاس قید ہے۔
پانچ سال گزرنے کے باوجود راشد حیسن کو منظر عام نہیں لایا گیا ہے۔راشد کو دہشت گرد کہہ کر حراست میں لیا تھا راشد حسین دہشت گرد تھا تو سوال یہاں اُٹھاتا ہے کہ اسے عدالت میں پیش کیوں نہیں کیا گیا پانچ سالوں میں؟؟راشد حسین کے دہشت گرد ہونے کے ثبوت منظر عام کیوں نہیں لائے گے ؟راشد حسین کو پولیس تھانوں میں کیوں نہیں رکھا گیا؟راشد حسین کی والدہ کو اس کے بیٹے سے ملنے کیوں نہیں دے رہے ہیں ۔
راشد کی والدہ کو کمیشن کی پیشیوں میں تنگ کیا جاتا بوڑھی بیمار ماں پہلے سے پریشان ہے بیٹے کی جدائی میں اسے مزید ازیتِ کرب میں مبتالہ کیا جاتا ہے۔
اِن پانچ سالوں میں راشد کی والدہ بیماری اور آنکھوں کی بینا کمزور ہونے کے باوجود انصاف کے لئے ہر دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے لیکن ہر در سے نا امید ہوکر لوٹ آتی ہے۔راشد حسین کی والدہ کی زندگی احتجاج اور پریس کلبوں میں گزر رہی ہیں۔
کہنے کو پاکستان اور دبی اسلامی ملک ہے میں اِن کو اسلامی واقع بتاتی ہوں شاہد انہیں سمجھ میں آجائے راشد حیسن کی ماں کی تکلیف جب (”حضرت اسماعیل کو پیاس لگی تھی پانی ان کے پاس نہیں تھا تب حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں صفاہ اور مروہ کی پہاڑوں پر چکر لگا کر پانی کی تلاش کرتی رہی“ وہ ماں اپنے بیٹے کی بھوک پیاس کی شدت کو محسوس کر رہی تھی اسے پتہ تھا آس پاس پانی نہیں لیکن بیٹے کی خاطر ڈونڈتی رہی شاہد پانی مل جائے) ایسی طرح راشد کی والدہ اپنے بیٹے کی تلاش میں کبھی کوئٹہ کی پریس کلب تو کبھی اسلام آباد کی پریس کلب کے سامنے احتجاج میں بیٹھ جاتی ہے۔اس امید کے ساتھ شاہد ظالم ریاست میرے لخت جگر کو بازیاب کر دے۔راشد کی والدہ کا مطالبہ سادہ ہے اس نام نیاد سوتیلی ماں ”پاکستان“ سے اپنا بیٹا خیریت سے چائے ۔اگر راشد حسین مجرم ہے اسے اپنی بنائے ہوئے عدالتوں میں پیش کر دئے منظر عام میں لائیں اور قانونی طریقے سے سزا دی جائے۔لاپتہ نہ رکھے قانونی طور پر سزا دے ۔راشد اور دیگر لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے ہر انسان کو سکون سے جینے کا حق دیا جائے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔