انقلاب: پہچان باطن ۔ منیر بلوچ

248

انقلاب: پہچان باطن

تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

انقلاب صرف ظلم و جبر کے خلاف لڑنے اور نظام کی تبدیلی کا نام نہیں بلکہ انقلاب محبت و مزاحمت کی آمیزش اور پہچانِ باطن کا نام ہے۔ ظاہری صورت میں ہر شخص انقلابی ہے لیکن باطن میں چھپا اس کا کردار اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب انقلاب اپنے عروج پر ہو اور وہ کردار آئیں بائیں شائیں اور مختلف حیلوں و بہانوں سے انقلاب کو دوسرا رنگ دینے کی کوشش کرتا ہے اور اسی اثناء وہ انقلابی دوستوں کی نظر میں آجاتا ہے۔

اس خطے کی تاریخ گواہ ہے کہ بیسویں صدی میں انقلاب کی لہر بلوچستان کی زمین سے وارد ہوئی جب آغا کریم خاں نے پاکستانی قبضے کے خلاف مزاحمت کی راہ اپنائی اور ان کی انقلابی میراث اکیسویں صدی میں نوجوان نسل کو منتقل ہوئی اور یہ انقلابی قافلہ آگے بڑھتا رہا اور پہچان باطن کرتا رہا۔ 1948 سے 2000 تک کئی ایسے کردار منظر عام پر آئے جن کا کردار تاریخ کے سنہرے دور میں شامل ہوا جبکہ متعدد کرداروں کو انقلاب نے سماج کے سامنے برہنہ کرکے رکھ دیا۔

ایک وقت تھا جب غوث بخش بزنجو و ڈاکٹر مالک بھی انقلابی تھے لیکن آج انقلاب نے ان کے باطن کی پہچان بلوچ سماج میں کردی جو تاریخ میں ہمیشہ نقش رہیں گی۔

دو ہزار سے لیکر دو ہزار بائیس تک انقلاب سماج کو بدکردار انقلابیوں کے باطن سے آگاہی دیتا رہا اور سماج ان بدکرداروں کو اپنے صفحوں سے بے دخل کرتا رہا اور حقیقی انقلابیوں کو اپنے سینے سے لگاتا رہا۔

حال ہی میں برپا ہونے والا انقلاب بلوچستان اپنے سینے میں کئی راز لئے نمودار ہوا اور انقلاب نے اپنے جگر گوشوں کو سرخ رو جبکہ ظاہری انقلابی اور باطنی طور پر بد کرداروں کو سماج سے آشنا کرکے ان کی حقیقت سماج کے سامنے عیاں کردی۔

جب بالاچ بلوچ کو شہید کیا گیا تو دھرنا اور دھرنے کے بعد تربت ٹو کوئٹہ لانگ مارچ اور کوئٹہ سے اسلام آباد تک کے لانگ مارچ کے سینے میں بھی ہزاروں راز دفن تھے جنہوں نے انقلاب کے نام پر عوام کو گمراہ کیا عوام کے سامنے ان کا اور انکے انقلاب کا راز آشکار ہوا جبکہ حقیقی انقلابی اور انسانیت کا درد دل رکھنے والوں نے خود کو ہمیشہ کے لئے سرخ رو کیا اور تاریخ انہیں ضرور یاد رکھیں گی۔

جب بالاچ کی لاش تربت دھرنے میں رکھی گئی تو منظور پشتین نے تربت جانے،دھرنے کی حمایت اور اتحاد کا نعرہ بلند کیا تو نہ صرف ریاست کی بنیادوں کو جھٹکا لگا بلکہ مظلوم اقوام کے درمیان ایک محبت کی بھی جھلک ظاہر ہوئی اور اسی حمایت نے منظور پشتین سمیت پشتونوں کو انقلاب کا حمایتی اور انقلاب کا فرزند ظاہر کیا۔
اسی طرح دکی میں پشتونوں کا قافلے کا استقبال اور ڈی آئی خان میں علی وزیر اور منظور پشتین کے والد اور والدہ کا استقبال یہ ظاہر کرتا ہے کہ انقلاب اپنے حقیقی کرداروں کو دنیا کے سامنے لا کر انہیں امر کردیتا ہے۔

جب انقلابی قافلہ اسلام آباد پہنچتا ہے تو پنجاب پولیس مظاہرین پر تشدد کرتا ہے اور ریاست اپنے پالتو کتوں کو سوشل میڈیا میں متحرک کرکے اس مارچ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتا ہے اور ایسے بے ڈھنگے سوال ماہرنگ اور دیگر مظاہرین سے پوچھے جاتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاستی اداروں نے یہ سوال صحافیوں کو بذریعہ میڈیا ارسال کئے ہوں تاکہ میڈیا اور دنیا کی نظروں میں اس لانگ مارچ اور احتجاج کو متنازعہ بنایا جاسکے۔

کچھ صحافی نماء ریاستی دلال سوشل میڈیا میں اس لانگ مارچ کے شرکا خاص کر ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کو بی ایل اے سے جوڑنے کے لئے مختلف پروپگینڈہ کررہے ہیں تاکہ ان کا رزق حلال ہو۔کبھی ریاستی ایجنٹوں کو مزدور کے بھیس میں پیش کرکے سوالات کئے جاتے ہیں اور کبھی شہید غفار لانگو کی تصویر کو سوشل میڈیا میں بطور دہشت گرد ظاہر کرکے ریاست پاکستان کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کی کوشش کررہی ہے۔

لیکن ان تمام واقعات میں کچھ ایسے کردار انقلاب سامنے لائی جو بے دست و پا ہونے کے باوجود اس مزاحمت کی حمایت نہ صرف کرتے رہے بلکہ یکجہتی کے لئے میدان کاراز میں موجود رہے جن میں اسد بٹ، حامد میر اور عاصمہ شیرازی قابل ذکر ہے ان کا یہ کردار واضح کرتا ہے کہ انقلاب پہچان باطن کا نام ہے اور باطن کا راز ایک ایسا راز ہے جو انسان کو دوسرے انسانوں سے ممتاز بناتا ہے۔

ڈاکٹر اللہ نذر کہتے ہیں کہ انقلاب اپنے بچوں کو کھاجاتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انقلاب اپنے بچوں کی پرورش کرتا ہے اور انہی انقلابیوں کی مرہون منت انقلاب مختلف مراحل سے گزر کر حقیقی و جعلی کرداروں سے بھی آشکار کراتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔