پولیس کے ہاتھوں اسلام آباد سے گرفتار کئی سو طلباء مختلف تھانوں میں موجود ہیں-
گذشتہ روز اسلام آباد پولیس کی جانب سے بلوچ نسل کشی لانگ مارچ کو اسلام آباد میں داخلے سے روکنے تشدد و گرفتاریوں بعد رات گئے خواتین مظاہرین کو رہا کردیا گیا ہے تاہم مرد مظاہرین تاحال پولیس کے زیر حراست ہیں-
بلوچ یکجہتی کمیٹی اسلام آباد کے مطابق پولیس کے زیر حراست 200 زائد بلوچ طلباء موجود ہیں جن میں پشتون سمیت دیگر شہروں کے طلباء بھی شامل ہیں-
طلباء کے مطابق گرفتاری ساتھی اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں بند ہیں جبکہ کسی بھی تاحال مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا جبکہ چند طلباء کو پولیس نے حراست بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے-
بلوچ یکجہتی کمیٹی اسلام آباد کے مطابق گذشتہ روز ہائی کورٹ کی جانب سے تمام گرفتاریوں کی رہائی کی حکم کے باوجود کسی کو رہا نہیں کیا جارہا اور ابتک درجنوں بلوچ طلباء پولیس کے حراست میں ہیں جنھیں شدید مشکل حالات میں حوالات میں بند رکھا گیا ہے اور خدشہ ہے کہ انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا-
واضح رہے گذشتہ روز اسلام آباد داخلے کی کوشش میں پولیس نے لانگ شرکاء کو روکتے ہوئے تشدد کا استعمال کیا جس میں متعدد مظاہرین جن میں بچے شامل تھے زخمی ہوئے جبکہ بعد ازاں پولیس نے درجنوں کی تعداد میں لانگ مارچ کے شرکاء کو حراست میں لیکر تھانے منتقل کردیا تھا-
رات گئے خواتین کی اسلام آباد بدری کوئٹہ منتقلی کی بھی کوشش کی گئی تاہم خواتین کی جانب سے شدید مزاحمت کے بعد پولیس زیر حراست خواتین بچوں کو رہا کردیا ہے-
دوسری جانب اسلام آباد لانگ مارچ کے شرکاء پر تشدد اور گرفتاریوں کے خلاف بلوچستان بھر میں مظاہرے جاری ہیں جبکہ کراچی اور لاہور میں بھی لانگ مارچ کے شرکاء کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ریلی اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے-