اب اسلام آباد نہیں جائیں گے! ۔ عزیز سنگھور

296

اب اسلام آباد نہیں جائیں گے!

تحریر: عزیز سنگھور
دی بلوچستان پوسٹ 

اسلام آباد میں بلوچ پرامن مظاہرین پر پولیس کا وحشیانہ تشدد اور شیلنگ سے متعدد خواتین اور بچے شدید زخمی ہوگئے ہیں۔ جبکہ لانگ مارچ کی قیادت کرنے والی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت 226 افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ نہتے اور پرامن احتجاج کرنے والوں پر پولیس گردی سے نہ بلوچ قوم کمزور ہوگی اور نہ ہی ان کی تحریک دب سکتی ہے۔

لانگ مارچ کے شرکا اسلام آباد اس امید کے ساتھ گئے تھے کہ انہیں ملک کی آئین و قانون کے مطابق انصاف ملے گا۔ ان کے مطالبات میں لاپتہ افراد کی بازیابی، ماورائے عدالت کارروائیوں کے خاتمے اور زیرحراست بالاچ بلوچ کی ہلاکت پر جوڈیشل انکوائری جیسے شامل نکات تھے۔

بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے اسلام آباد پہنچنے والے لانگ مارچ کے سینکڑوں شرکا پراسلام آباد پولیس نے حملہ کرکے ملکی آئین و قانون کی دھجیاں اڑادی ہیں۔ بلوچ خواتین اور بچیوں تک کو نہیں چھوڑا گیا۔ بلوچی رسم و رواج کی پامالی کی گئی۔ غیر مہذب پولیس نے بلوچ روایات کو طاقت کے ذریعے روند ڈالا۔ بلوچی دوپٹہ خواتین کے سروں سے گن پوائنٹ کے ذریعے اتارا گیا۔ انہیں بالوں سے گھسیٹا گیا۔ اور زبردستی پولیس موبائلوں میں ڈالا گیا۔ انہیں مختلف تھانوں میں قید رکھا کیا گیا۔

واٹر کینین کا آزادانہ استعمال کیا گیا۔ شیلنگ کی گئی۔ لاٹھی چارج کیا گیا۔ جس کے باعث متعدد خواتین اور بچے شدید زخمی ہوگئے۔
دوسری جانب پاکستانی میڈیا میں کشمیر اور غزہ کی صورتحال پر ہیڈ لائنیں چل رہی تھیں۔ جبکہ ان کی ناک کے نیچے بربریت جاری تھی۔ جو انہیں نظر نہیں آرہی تھی۔ بلکہ پنجابی میڈیا پرسنز “الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے” والا محاورے پر عمل پیرا تھے۔

پنجابی اینکرپرسن غریدہ فاروقی نے سماجی ویب سائٹس ایکس پر پرامن بلوچ خواتین کو دہشتگرد قراردیتے ہوئے کہا کہ لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی سیکریٹری جنرل سمی دین بلوچ ایک دہشتگرد ہے۔ اگر سمی بلوچ دہشتگرد ہوتی تو وہ آج پاکستانی آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر چودہ سالوں سے اپنے والد کی بازیابی کے لئے سڑکوں پر پرامن جدوجہد نہ کرتی۔ وہ پاکستانی عدالتوں کے دروازے نہ کھٹکھٹاتی۔ دہشتگرد وہ ہیں جو اپنے بنائے گئے قوانین و آئین کے برعکس کام کرتے ہیں۔ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا مطالبہ صاف اور واضع ہے۔ وہ کہتے ہیں اگر کوئی بلوچ جرم کا مرتکب ہوا ہے۔ انہیں آئین و قانون کے مطابق عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ سزا دینا عدالتوں کا کام ہے۔ نہ کہ اداروں کا کام ہے۔ اگر کوئی مجرم ہے تو انہیں بے شک عدالتوں کے ذریعے سزا دی جائے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کو قبول ہے۔ پندرہ پندرہ سالوں سے بلوچ قوم کے فرزند غائب کئے گئےہیں۔ انہیں عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاتا۔

بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین دہشتگرد نہیں ہیں۔ دہشتگردی کے مرتکب وہ ہیں جو ملکی آئین و قانون کے برخلاف کام کرتے ہیں۔ انہیں عدالتوں کی کوئی پرواہ نہیں ہیں۔ وہ اتنے طاقتور ہیں جو عدالتوں کو جوابدہ نہیں ہوتے ۔ بلکہ پاکستانی عدالتیں ان کے کہنے پر راتوں کو کھلتی ہیں۔ ان کے حق میں فیصلے دیتی ہیں۔ پھر ان کے کہنے پر ان کے دروازوں کو تالے لگ جاتے ہیں۔

پنجاب میں کسی کا کتا یا بلی غائب ہوجائے۔ تو میڈیا میں بریکنگ نیوز چلتی ہے۔ انتظامیہ حرکت میں آجاتی ہے۔ عدالتوں میں سماعت چلتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب نومبر 2023 کے آخری ہفتے سے بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل کے خلاف دھرنا اور لانگ مارچ کا سلسلہ چل رہا ہے۔ نہ کسی میڈیا میں اس کی جگہ موجود ہے۔ نہ حکومت کو پرواہ ہے اور نہ ہی عدالتوں کے کان پر جوں رینگتی ہے۔

سپریم کورٹ کے شہر میں ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے طے کرنے والی بلوچ ماؤں اور بیٹیوں پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں۔ اس موقع پر “عدالتی سوموٹو” کیوں نہیں آتا۔ کیونکہ اس ملک میں بلوچ کے لئے الگ قانون ہے اور پنجابی کے لئے الگ قانون موجود ہے۔ پاکستان میں انصاف و قانون کا دوہرا معیار اورعدالتیں قائم ہیں۔ اب بلوچ کبھی بھی انصاف مانگنے اسلام آباد نہیں جائینگے۔ اب انہیں انصاف شاید بولان، چلتن، راسکو، شاشان اور کوہ سلیمان کے پہاڑوں پر ملے گا۔ پہاڑوں کا یہ راستہ بلوچوں کو حکمرانوں نے اپنی پالیسیوں کی وجہ سے دکھایا ہے۔
اسلام آباد پولیس کی غنڈہ گردی سے یہ پیغام ملتا ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ یہ فرق ڈومیسائل کا ہے۔ جب لاہور میں جناح ہاؤس کو جلادیا جاتا ہے۔ اور راولپنڈی میں اہم تنصیبات پر حملہ کرکے اس میں توڑ پھوڑ کی جاتی ہے۔ مگر وہاں کوئی لاٹھی چارج نہیں ہوتا ہے۔ شاید اس لئے شیلنگ اور گرفتاری نہیں ہوتی ہے کہ پنجاب کا خون مہنگا ہے۔ اور بلوچستان کا خون سستا ہے۔ یہ دوہرا معیار کیوں؟۔ کیا بلوچ اس ملک کے برابر کے شہری نہیں ؟۔ اسی طرح بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بزرگ سیاستدان نواب اکبر خان بگٹی کو قتل کیا جاتا ہے۔ اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم نواز شریف کو پھانسی گھاٹ سے سعودی عرب روانہ کردیا جاتا ہے۔ حال ہی میں میاں نوازشریف کو سرکاری پروٹوکول سے لندن سے پنجاب لایا جاتا ہے۔ اور واشنگ میشن میں ڈال کر ان کی گند کو دھو لیا جاتا ہے۔

خُدارا ایسی پالیسی نہ بنائی جائے جس سے “آزاد بلوچستان” ایک حقیقت میں تبدیل ہوجائے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔