آنسو
تحریر: چگرد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آنسوؤں کا سمندر جو میرے گلزمین کو سیلاب کی طرح بہا کر لے جارہا ہے۔ ایک ایسا سمندر جو میرے گلزمین کی کوئی گھر اس سیلاب کی زد سے باقی نہ رہا۔ ماؤں اور بہنوں کے آنسو بولان کی ندی کی طرح بہہ رہے ہیں۔ کاش آنسوؤں کا سیلاب پنجاب میں آئے اور اُن کے گھروں کو بہا کر لے جائے۔ کاش یہ آنسوؤں کا سیلاب سیاستدانوں کے گھروں کی چھتوں کو گرا کر زمین بوس کرے۔
کس کی آنسوؤں کا ذکر کریں ؟
سمی کی !
سائرہ کی !
نجمہ کی !
یا پھر راشد حسین کی بوڑھی ماں کی !
میں اِن آنسوؤں کا ذکر کیسے کروں ؟
اِن الفاظ کو لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ میں صرف اس درد کو محسوس کر رہا ہوں جبکہ مائیں اور بہنیں اس درد سے گزر رہے ہیں۔
آج ساتواں دن ہے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے میری مائیں اور بہنیں بیٹھی ہوئی ہیں۔ میں جب راشد حسین کی لمہ کو دیکھتا ہوں تو دل پھٹ رہا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے میں مرچکا ہوں ، میرا ضمیر مرچکا ہے۔ راشد حسین کی لمہ جسمانی تو کمزور ہے مگر لمہ جان کی بہادری اور دلیری کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔
لمہ جان ایک حوصلہ ہے
لمہ جان مزاحمت کی علامت ہے
لمہ جان بلوچستان کے پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط ہے
لمہ جان بلوچستان ہے
ایک تقریب میں کوئی بول رہا تھا کہ بلوچ مائیں اور بلوچ دھرتی کبھی بانجھ نہیں ہوسکتیں، بولنے والا قربان ہوا اور دھرتی نے لاکھوں نڈر، بے باک اور جذبہ قربانی سے سرشار بچے جن لیے۔ قدرت نے بلوچ کو وطن پہاڑ، سمندر ، صحراؤں اور وادیوں پر مشتمل وطن عطا فرمایا اور اس وطن پر حوصلہ مند ماؤں نے وہ نر مزار پیدا کیے جن کا نام آج ہوچی منھ، چے گویرا اور فیدل کاسترو کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ بلوچ بیٹی اپنی آغاز سے انجام تلک روز ایک قیامت کا سامنا کرتی ہے، بھوک، افلاس، بیماری اور پھر سامراجی جبر۔
دنیا کے تاریخ میں بلوچ ماؤں کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ آئے روز وہ سڑکوں پہ اپنے گم شدہ بیٹوں کی بازیابی کے لیے آواز اٹھاتی دکھائی دیتی ہیں اور روز جواں سالا بیٹوں کے لاشے اٹھاتی ہیں۔ ان کی روحیں زخموں سے چور ہیں، اور سینے درد سے چھلنی۔ وہ بیٹے جو ان کے بڑھاپے کا سہارا بننے تھے، جو ماں کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھے۔ بلوچ مائیں اُن بیٹوں کو دھرتی ماں پہ قربان کر دیتی ہیں۔ کیونکہ وہ غلامی کے درد سے واقف ہیں۔ اُنھوں نے زندگی کو جھیلا ہے۔ وہ شاید بچے جنتی ہی اس لیے ہیں کہ انہیں دھرتی ماں کی عصمت پہ قربان کر سکیں۔ کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ دھرتی ماں جیسی ہے۔ اور جب ماں کرب میں ہو تو بیٹے بھلا سکون سے کیسے رہ سکتے ہیں۔ان کی یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔
آج بلوچ مائیں فیض کے اس شعر کو عملی جامہ پہنائے ہوئے ہیں
کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت
چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔